11%

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے او رہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیںہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیںہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور ناپیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے:(یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآئُ اِلٰی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ) 1 جو بات عام لوگ اس آیۂ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ''فقرائ'' سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند

(1) سورۂ فاطر، آیت 15 ۔