بغض وکینہ رکھنے والا گروہ
جاہل عرب کے بہت سے قبیلے بدلہ لینے اور بغض وکینہ رکھنے میںبہت مشہورتھے ،جب ہم تاریخ جاہلیت عرب کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے حادثے ہمیشہ بڑے بڑے حادثات میں تبدیل ہوتے تھے ،اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر بدلہ لینے کی فکر کبھی ختم نہیں ہوتی تھی یہ بات صحیح ہے کہ وہ لوگ اسلامی تعلیمات کی بناء پر ایک حد تک جاہلیت سے دور ہوئے تھے اور نئی زندگی حاصل کر لی تھی لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان کے اس طرح کے احساسات مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے ،اور کوئی اثر ان کے اندر باقی نہ تھا ،بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کم وبیش بدلہ لینے کی حس ان کے اندر باقی تھی ۔
یہ بات بغیر کسی دلیل کے نہ تھی کہ حباب بن منذرنے جوگروہ انصار کا بہادر شخص اور گروہ انصار کے لئے خلافت کا امید وار تھاسقیفہ میں خلیفہ دوم کی طرف رخ کرکے کہا تھا ۔
ہم تمہاری خلافت و جانشینی کے ہر گز مخالف نہیں ہیں اور نہ اس کام پرحسد کرتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں چلی جائے کہ ہم نے شرک کو مٹانے اور اسلام کو پھیلانے کے لئے اسلامی جنگوں میں ان کے باپ دادا اوران کے فرزندوں کو قتل کیا ہے کیونکہ مہاجرین کے اعزاء و احباب انصار کے فرزندوں اور نوجوانوں کے ہاتھ قتل ہوئے ہیں. چنانچہ اگر انہی افراد کے ہاتھ میں حکومت آجائے تو ہماری حالت یقینا تبدیل ہو جائے گی۔
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
میں نے کتاب ''سقیفہ'' تالیف احمد بن عبد العزیز جوہری کو ۶۱۰ھ میں استاد ابن ابی زید رئیس بصرہ سے پڑھی، اور جب بحث حباب بن منذر کی گفتگو تک پہونچی تو میرے استاد نے کہا حباب کی پیشنگوئی بہت عاقلانہ تھی اور جس چیز کا اسے خوف تھا وہ یہ کہ مسلم بن عقبہ مدینہ پر حملہ کرے گا اور اس شہر کویزید کے حکم سے محاصرہ میں رکھا جائے گا اورہوا بھی یہی بنی امیہ نے جنگ بدرمیں قتل ہونے والے اپنے تمام افراد کا بدلہ انصار کے بیٹوں سے لے لیا۔
پھر استاد نے ایک اور مطلب کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا: