7%

بامقصد خاموشی

حقیقت ہے کہ اسلامی معاشرہ اور خاندان رسالت کو عجیب مشکلات سے دوچار کر دیا تھا اور ہر لمحہ اس بات کا ڈر تھا کہ مسلمانوں کے درمیان خلافت کے موضوع پر جنگ چھڑ جائے اور اسلامی معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے اور عرب قبیلوں کے تازہ مسلمان، جاہلیت اور بت پرستی کے دور کی طرف پلٹ جائیں ،اسلامی تحریک، ابھی نئی نئی اور جواں سال تحریک تھی اور ابھی اس تحریک نے لوگوں کے دلوں میں جڑ نہیں پکڑی تھی اور ان میں سے اکثریت نے دل کی گہرائیوں سے اس تحریک کو قبول نہیں کیا تھا۔

ابھی حضرت علی او ر پیغمبر کے بہت سے باوفا اصحاب پیغمبر کے غسل و کفن اوردفن سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ اصحاب کے دو گروہ آپس میں خلافت کے مدعی ہوگئے او راس راہ میں بہت زیادہ مشکلات کھڑی کردیں وہ دو گروہ یہ تھے:

۱۔ انصار ، خصوصاً قبیلۂ خزرج جو مہاجرین سے پہلے ایک مقام پر جسے سقیفہ بنی ساعدہ کہتے ہیں جمع ہوگئے تھے اورچاہا تھاکہ تمام امور کی ذمہ داری سعد بن عبادہ رئیس خزرج کے حوالہ کریں اوراسے پیغمبر کا جانشین منتخب کریں. لیکن چونکہ انصار کے قبیلے میں اتحاد و اتفاق نہ تھا اور ابھی بھی پرانے کینے ان کے دلوں میں جڑ پکڑے ہوئے تھے خصوصاً اوس و خزرج کے قبیلے والے اپنے اپنے کینوں کونہیں بھولے تھے. انصار کا گروہ داخلی مخالفت کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقابلے میں آگیا اور قبیلۂ اوس کے لوگ سعد کی پیشوائی میں جو کہ خزرج سے تھا مخالفت کی اور نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس راہ میں ان کی مدد نہ کی بلکہ خواہش ظاہر کی کہ امت کی باگ ڈور مہاجرین میں سے کسی کے ہاتھ میں ہو۔

۲۔ مہاجرین،اوران سب کے رئیس ابوبکر اور ان کے ہم فکر ہیں کی تعدا د سقیفہ میں بہت کم تھی لیکن اس علت کی بناء پر جس کا اشارہ ہم کرچکے ہیں انہوں نے ابوبکر کے لئے ووٹ جمع کرلیا اور کامیابی کے ساتھ سقیفہ سے باہر آئے او رمسجد تک آتے آتے بہت زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ کرلیا. اور ابوبکر خلیفہ رسول کے عنوان سے منبر رسول خدا پر بیٹھے اور لوگوں کو بیعت و اطاعت کی دعوت دی۔