تیسری فصل
حضرت علی ـسے بیعت لینے کا طریقہ
یہ باب تاریخ اسلام کا سب سے دردناک اور تلخ ترین باب ہے جس نے بیدار دلوں کو سخت غم و اندوہ میں مبتلا کردیاہے اور ان کے دل سوز غم سے جل رہے ہیں. تاریخ کے اس باب کواہلسنت کے دانشمندوں نے اپنی کتابوں میں مختصر اور بہت کم لکھا ہے لیکن علمائے شیعہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، شایدقارئین کرام میں کچھ ایسے بھی افراد ہوںجو خانۂ وحی پر تجاوز و زیادتی کرنے والوں کے واقعات کواہلسنت کے مؤرخین اور محدثین کی زبان سے سننا چاہتے ہوں. اسی وجہ سے اس باب میںہم واقعات کو اہلسنت کے مصادر و مدارک سے تحریر کر رہے ہیںتاکہ شکی اور دیر میں یقین کرنے والے افراد اس تلخ واقعہ پر یقین کرلیں. اس باب میں اس چیز کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جسے مشہور مؤرخ ابن قتیبہ دینوری نے اپنی کتاب ''الامامة و السیاسة'' میں نقل کیا ہے ہم اس باب کا تجزیہ اور تحلیل بعد میں کریں گے، تمام مؤرخین اہلسنت اس بات پر متفق ہیں کہ ابھی سقیفہ کی بیعت کو زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ خلافت کے ماننے والوں نے ارادہ کیا کہ حضرت علی ، عباس، زبیر اور تمام بنی ہاشم سے ابوبکر کی بیعت لیں، تاکہ ابوبکر کی خلافت میں اتحاد و اتفاق نظر آئے اور ہر قسم کی رکاوٹ اور مخالفت، خلافت کے راستے سے ختم جائے۔واقعہ سقیفہ کے بعد بنی ہاشم او رمہاجرین کے بعض گروہ اور امام کے ماننے والے بعنوان اعتراض حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر میں جمع ہوگئے تھے. فاطمہ زہرا (س) کے گھر میں رہنے کی وجہ سے کہ جو پیغمبر کے زمانے میں ایک خاص اہمیت کا حامل تھا اہل خلافت کے لئے مانع ہو رہا تھا کہ وہ فاطمہ کے گھر پر حملہ کریں اور وہاں پر موجود افراد کو زبردستی مسجد میں لے جا کر ان سے بیعت لیں۔مگر آخر میں ہوا وہی، انھوںنے جیسا سوچا تھا ویسا ہی کرڈالا اور اس گھر کو جو وحی الہی کا مرکز تھا نظرانداز کردیا. خلیفہ نے عمر کو ایک گروہ کے ساتھ بھیجا تاکہ جس طرح بھی ممکن ہو پناہندگان کو فاطمہ کے گھر سے نکال کر سب سے بیعت لے لیں، عمر جن لوگوں کے ساتھ آئے ان میں اسید بن حضیر و سلمہ بن سلامہ و ثابت بن قیس اور محمد بن سلمہ بھی تھے۔(۱) حضرت فاطمہ (س)کے گھر کی طرف آئے تاکہ پناہ لینے والوں
______________________
(۱) ابن ابی الحدید نے ان تمام لوگوں کا نام اپنی شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵۰ پر لکھا ہے۔