خانۂ وحی پر حملے کے بارے میں تاریخ کا انصاف
سقیفہ کے بعد کے حوادث تاریخ اسلام اور امیر المومنین (ع) کی زندگی کے دردناکترین اور تلخ ترین حوادث میں سے ہیں اس بارے میں حقیقت بیانی اور صاف گوئی ایک ایسے گروہ کی رنجش کا سبب بنے گا جو ان واقعات کے بیان کرنے میں تعصب سے کام لیتے ہیں اور حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہ ہو اور ان کی پاکیزگی و قداست محفوظ رہے، کیونکہ حقیقت کو پوشیدہ اور برعکس بیان کرنا تاریخ اور آئندہ آنے والی نسل کے ساتھ ایک خیانت ہے اور ہرگز ایک آزاد مؤرخ اس بدترین خیانت کو اپنے لئے نہیں خریدتا اور دوسروں کی نگاہ میں اچھا بننے کے لئے حقیقت کو پوشیدہ نہیں کرتا۔ابوبکر کے خلیفہ بننے کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ خانۂ وحی اور حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ ہے اس ارادے سے کہ پناہ لینے والے حضرت زہرا(س) کے گھر کو چھوڑ کر بیعت کرنے کے لئے مسجد میں آئیں اس موضوع کی صحیح تشریح اور نتیجہ گیری کے لئے ضروری ہے کہ قابل اطمینان منابع و مأخذ ہوں،چاہے وہ صحیح نتیجہ دیں یا غلط، اور ضروری ہے کہ ان باتوں کا تجزیہ کریں اور پھر اس واقعہ کے نتیجے کے بارے میں انصاف کریں اور وہ تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ کے سپاہیوں نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت فاطمہ (س) کے گھر کو جلادیں؟ اور اس بارے میں انھوں نے کیا کیا؟
۲۔ کیا یہ صحیح ہے کہ امیر المومنین کوبڑی بے دردی اور اذیت کے ساتھ مسجد لے گئے تاکہ ان سے بیعت لیں؟
۳۔ کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کی بیٹی اس حملے میں شدید طور پر زخمی ہوئیں اور آپ کے شکم میں موجود بچہ ساقط ہوگیا؟
اس واقعہ کے تین حساس موضوع پر علمائے اہلسنت کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے گفتگو کریں گے۔
اسلامی تعلیمات میں سب سے اہم تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہو مگر یہ کہ پہلے اجازت لے اور اگر گھر کا مالک مہمان قبول کرنے سے معذور ہو اور عذر خواہی کرے تو اسے قبول کرے اور بغیر اس کے کہ ناراض ہو وہیں سے واپس چلا جائے۔(۱) قرآن مجید نے اس اخلاقی تعلیم کے علاوہ ہر اس گھر کو جس میں خدا کی عبادت ہوتی ہے اور اس کا صبح و شام ذکر ہوتا ہے اسے محترم اور لائق احترام جانا ہے۔
______________________
(۱) سورۂ نور، آیت ۲۸۔ ۲۷،''یا ایها الذین آمنوا لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا...''