پانچویں فصل
مسئلہ فدک اور افکار عمومی
پیغمبر کی بیٹی کے اعتراض اور فدک کو غصب ہوئے چودہ صدیاں گذر گئیں مگر آج بھی بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ شاید اس واقعہ کا فیصلہ کرنا دشوار ہے ،کیونکہ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد اگر قاضی فیصلہ کرنا چاہے تو فدک کے مسئلہ پر مکمل طریقے سے معلومات فراہم نہیں کرسکتا، اور نہ ہی ان تمام معلومات و شواہد کا دقت سے مطالعہ کرسکتا ہے کہ صحیح فیصلہ کرسکے، ممکن ہے اس واقعہ میں تحریف کردی گئی ہو اور اس کے مفہوم کو خلط ملط کردیا گیا ہو لیکن جو چیز اس مشکل چیز کو آسان کرسکتی ہے وہ یہ کہ قرآن مجید اور پیغمبر کی احادیث اور طرفین کے دعوے اور اختلاف کی طرف رجوع کیا جائے اور نئے انداز سے اس مسئلہ کو منظم کیا جائے اور اسی اساس پر اسلام کے بعض قطعی و محکم اور نہ بدلنے والے اصول کے ذریعے فیصلہ کیا جائے ہم یہاں اس کی وضاحت کر رہے ہیں۔
اسلام کے مسلم اصولوں میں سے ایک قانون یہ ہے کہ ہر وہ زمین جو بغیر جنگ اور بغیر فوجیوں کے غلبہ کے مسلمانوں کے ذریعے فتح ہو، وہ حکومت اسلامی کے اختیار میں ہوتی ہے اور عمومی مال میں اس کا شمار ہوتا ہے اور وہ رسول خدا کا حصہ ہوتی ہے۔
اس طرح کی زمینیں پیغمبر کی ذاتی ملکیتیں نہیں ہوتیں، بلکہ اسلامی حکومت سے مخصوص ہوتی ہیں جس کے رئیس پیغمبر اسلام ہوتے ہیں اور پیغمبر کے بعد اس شخص کے اختیار اورتصرف میں ہوںگی جو پیغمبر کی جگہ اور پیغمبر کی طرح مسلمانوں کے تمام امور کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے، قرآن مجید نے اسلام کے اصلی قانون کو سورۂ حشر کی چھٹی اور ساتویں آیت میں بیان کیاہے
( وَمَا اَفَائ اﷲُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا َوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَلاَرِکَابٍ وَلَکِنَّ اﷲَ یُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَی مَنْ یَشَائُ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر ومَا َفَائَ اﷲُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْ اهْلِ الْقُرَی فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل )
(تو) جو مال خدا نے اپنے رسول کو ان لوگوں سے بے لڑے دلوادیا اس میں تمہارا حق نہیں کیونکہ تم نے اس کے لئے کچھ دوڑ دھوپ تو کی نہیں ، نہ گھوڑوں سے نہ اونٹوں سے، مگر خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتاہے غلبہ عطا فرماتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے تو جو مال خدا نے اپنے رسول کودیہات والوں سے بے لڑے دلوا دیا ہے وہ خاص خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے۔