2%

جو اموال پیغمبر کے اختیار میں تھے وہ دو طرح کا تھے:

۱۔ خصوصی

وہ اموال جو پیغمبر کے ذاتی تھے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ''پیغمبر کے خصوصی اموال'' کے نام سے تفصیل سے درج ہیں(۱) پیغمبر کی حیات طیبہ میں اس کا تصرف خود آپ کے ہاتھ میں تھا اور آپ کے بعد اسلام کے میراث کے مسائل کے مطابق آپ کے وارثوں تک منتقل ہونا چاہئے مگر یہ کہ ثابت ہو جائے کہ پیغمبر کے وارث آپ کے شخصی و ذاتی مال سے محروم تھے کہ اس صورت میں آپ کے مال کو بعنوان صدقہ لوگوں میں تقسیم ہونا چاہیئے یا اسلامی امور میں صرف ہونا چاہیئے آئندہ بحث میں ہم اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں گے اور ثابت کریں گے کہ میراث کے قانون کی رو سے پیغمبر کے وارثوں اور دوسروں کے وارثوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ حدیث جو خلیفہ اول نے پیغمبر کی طرف نسبت دے کر پیغمبر کے وارثوں کو میراث سے محروم کیا ہے، اگر فرض کرلیں کہ وہ صحیح ہے تواسکے دوسرے معنی ہیں جس سے خلیفہ اوراراکین خلافت نے غفلت برتی۔

۲۔ خالصہ(۲)

وہ مال او روہ ملکیت جو حکومت اسلامی سے مخصوص ہوتی ہے اور پیغمبر اسلام مسلمانوں اور اسلام کے مفاد و مصلحت میں خرچ کرسکتے ہیںاصطلاح میں اسے ''خالصہ'' کہا جاتا ہے فقہ کی بحث میں ایک باب ''فئی'' کے نام سے ہے جو کتاب جہاد اور کبھی باب ''صدقات'' میں موردبحث قرار پاتا ہے لغت میں فئی کے معنی پلٹنے کے ہیں اور اس سے مراد وہ زمینیں ہیں جو بغیر قتل و غارت گری کے اسلامی حکومت کے تصرف

______________________

(۱) کشف الغمہ ج۲ص ۱۲۲۔

(۲)وہ چیز جو کسی کی جاگیر نہ ہو۔