نژاد پرستی اور طبقاتی نظام
اسلام کااہم افتخار ، جو آج بھی اپنی طرف محروم اور مظلوم ترین افراد کو جذب کررہاہے ہر طرح کی تبعیض اور قوم پرستی سے لوگوںکو دور رکھنا ہے اور اس کا ایک ہی شعار ہے کہ تم میں سب سے عظیم شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔
پیغمبر اسلام کے زمانے میں حکومت کے سپاہیوں اور کام کرنے والوں کی کوئی معقول و معین تنخواہیں نہیں تھیں اور ان کی ضروریات زندگی مال غنیمت سے پوری ہوتی تھیں وہ مال جو مسلمان مشرکوں سے جنگ کر کے حاصل کرتے تھے اس میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بعد سپاہیوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور مال غنیمت تقسیم ہوتے وقت تبعیض یا حسب و نسب یا پیغمبر کا رشتہ دار کی رعایت نہیں کی جاتی تھی۔
خلیفہ اول کے زمانے میں بھی یہی طریقہ رائج تھا ،لیکن خلیفہ دوم کے زمانے میں یہ دستور تبدیل ہوگیا ،اسلام کے روزبروز ترقی کرنے کا سبب یہ ہوا کہ خلیفہ وقت نے سپاہیوں اور کام کرنے والوں کی تنخواہوں کے لئے ایک خاص بندوبست کیا ،لیکن افسوس کہ تنخواہ معین کرتے وقت معیار و میزان بجائے یہ کہ تقوی و پرہیزگاری، سیاسی و نظامی آگاہی، سابقہ خدمت وغیرہ ہو یا کم سے کم اسلام کو معیار قرار دیا جائے، حسب و نسب اور نژاد پرستی کو معیار قرار دیا گیا۔
اس اہم موضوع میں عرب کے سپاہی عجم کے سپاہیوں پر، عرب قحطان عرب عدنان پر، عرب مضر عرب ربیعہ پر، قریش غیر قریش پر، اور بنی ہاشم بنی امیہ پر مقدم تھے، اور پہلے گروہ والوں کی تنخواہ دوسرے گروہ والوں سے زیادہ تھی، مشہور مورخین مثلاً ابن اثیر، یعقوبی اورجرجی زیدان، نے اپنی اپنی تاریخ میں حکومت اسلامی کے سپاہیوں اور سرکاری نوکروںکی مختلف تنخواہوں کے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔(۱) تنخواہوں کی رقموں کا مختلف ہونا تعجب خیز ہے مشہور و معروف مالدار عباس بن عبد المطلب کا سالانہ وظیفہ ۱۲ ہزار درہم تھا جب کہ ایک مصری سپاہی کا سالانہ وظیفہ۳۰۰ درہم سے زیادہ نہ تھا۔
پیغمبر اسلام کی ہر ایک بیوی کا سالانہ وظیفہ ۶ ہزار درہم تھا جب کہ یمن کے ایک سپاہی کا سالانہ
______________________
(۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۶، کامل ابن اثیر ج۲ ص ۱۶۸، تاریخ جرجی زیدان ترجمۂ جواہر الکلام ج۱ ص ۱۵۹ کے بعد ۔