تھی ، اور ابھی بھی بت پرستوں کا مرکز ایک محکم قلعہ کی طرح باقی تھا اور مسلمانوں کی جان و مال کا بہت زیادہ خطرہ تھا، اگرچہ مسلمان، مکہ سے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم کی ہجرت کی وجہ سے، اور گروہ اوس و خزرج اور وہ قبیلے جو مدینے کے آس پاس تھے ایک طاقتور گروہ سمجھے جاتے تھے اور بہت سی لڑائیوں میں کامیاب بھی ہوئے تھے لیکن خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔
اس وقت جب کہ اسلام کا قبول کرنا اور جان و مال کا خرچ کرنا اہمیت رکھتا ہو، قطعی طور پر ابتدائی زمانے میں ایمان کا ظاہر کرنا اور قبول اسلام کا اعلان کرنا جب صرف قریش اور دشمنوں کی ہی طاقت و قوت تھی ایسے مقام پر اس کی اہمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ہے اس بنا پر مکہ میں پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کے صحابیوں کے درمیان اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرناایک ایسا افتخار ہے جس کے مقابلے میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دن خباب، جس نے اوا ئل اسلام میںبہت زیادہ زحمتیں برداشت کی تھیں ،سے پوچھا کہ مشرکین مکہ کا برتائو تمہارے ساتھ کیسا تھا ؟اس نے اپنے بدن سے پیراہن کو جدا کرکے اپنی جلی ہوئی پشت اور زخموں کے نشان خلیفہ کو دکھایا اور کہا .اکثر وبیشتر مجھے لوہے کی زرہ پہناکر گھنٹوں مکہ کے تیزاورجلانے والے سورج کے سامنے ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی آگ جلاتے تھے اور مجھے آگ پر لے جاکر بیٹھاتے تھے یہاں تک کہ آگ بجھ جا تی تھی۔(۱)
جی ہاں ۔مسلّم و عظیم فضیلت اور معنوی برتری ان افراد سے مخصوص ہے جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں ہر طرح کے ظلم وستم کو برداشت اور صمیم قلب کے سا تھ اسے قبول کیا۔
علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا
اکثر محدثین و مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام دوشنبہ کو منصب رسالت پرفائز ہوئے اور اس کے دوسرے دن (سہ شنبہ )حضرت علی ـ ایمان لائے(۲) تمام لوگوں سے پہلے اسلام قبول کرنے میںحضرت علی ـ نے سبقت کی ،اور پیغمبرنے اس کی تصریح کرتے ہوئے صحابہ کے مجمع عام میں فرمایا:
______________________
(۱) اسد الغابہ، ج۲ ص ۹۹
(۲) ''بعث النبی یوم الاثنین و اسلم علی یوم الثلاثائ''، مستدرک حاکم، ج۲ ص۱۱۲، الاستیعاب، ج۳ ص ۳۲