2%

محاصرہ میں خلیفہ کا مختلف لوگوں کو خط بھیجنا

عثمان نے محاصرہ کے ایام میں معاویہ کو خط لکھا کہ مدینے کے لوگ کافر ہوگئے ہیںاور بیعت کو توڑ دیا ہے لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے اچھے جنگ کرنے والوں کو مدینہ روانہ کرو، لیکن معاویہ نے عثمان کے خط کو کوئی اہمیت نہ دی، اور کہا کہ میں پیغمبر کے صحابیوں کی مخالفت نہیں کروں گا۔ خلیفہ نے مختلف خط یزید بن اسد بجلی کو شام اور عبد اللہ بن عامر کو بصرہ بھیجا اوراسی طرح حج کے موسم میں تمام حاجیوں کے نام خط لکھا ،اس سال حاجیوں کے سرپرست ابن عباس تھے، لیکن کوئی بھی مؤثر ثابت نہ ہوا، کچھ لوگ خلیفہ کی مدد کے لئے گئے لیکن مدینہ پہونچنے سے پہلے ہی ان کے قتل سے آگاہ ہوگئے۔

عثمان کے قتل میں جلدی،مروان کی غلط تدبیر کا نتیجہ تھا

محاصرہ کرنے والے خلیفہ کے گھر پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان لوگوں کی صرف یہ کوشش تھی کہ کھانا پانی گھر میں نہ پہونچے تاکہ خلیفہ اور ان کے ساتھی محاصرہ کرنے والوں کی بات مان لیں ، لیکن مروان کی یہ غلط تدبیر کہ انقلابیوں پر حملہ کر کے ایک شخص یعنی عروہ لیثی کو اپنی تلوار سے قتل کر ڈالنا یہی سبب بنا کہ تمام محاصرین خلیفہ کے گھر میں داخل ہوجائیں ۔ اس اجتماعی ہجوم میں خلیفہ کے تین ساتھی عبد اللہ بن وہب، عبد اللہ عوف اور عبد اللہ بن عبدالرحمن مارے گئے۔ ہجوم کرنے والے عمر و بن حزم انصاری کے گھر سے دار الخلافہ پر چڑھے اور خلیفہ کے آنگن میں اتر گئے، گھر کے اندر عثمان کا غلام ناقل، مالک اشتر اور عمر و بن عبید کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ بنی امیہ، جو خلیفہ اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت کرنے والے تھے سب کے سب بھاگ گئے اور رسول کی بیوی ام حبیبہ (ابوسفیان کی بیٹی) نے ان لوگوں کو اپنے گھر میں چھپالیا،اسی لئے تاریخ میں یہ حادثہ ''یوم الدار'' کے نام سے مشہور ہے ،خلیفہ کا قتل محمد بن ابی بکر، کنانہ بن بشر تحبیبی، سودان بن حمر ان مرادی ، عمر و بن حمق اورعمیر بن صابی کے ہاتھوں ہوا۔ خلیفہ کے قتل کے وقت ان کی بیوی نائلہ نے اپنے کو اپنے شوہر کے زخمی نیم جان بدن پر گرادیاجس کی وجہ سے ان کی دو انگلیاں کٹ گئیں لیکن انہوں نے عثمان کا سر جدا ہونے سے بچالیا مگر ہجوم کرنے والوں کی تلواروں نے ان کا کام تمام کردیا۔ اور کچھ لمحوں بعد ان کا بے روح جسم گھر کے گوشے میں گراپڑاتھا۔