ان باتوں کی روسے معاویہ ہرگز امام علی علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہیں کرتا، بلکہ ان سے عثمان کے پیراہن کی طرح، شامیوں کے درمیان اپنی شخصیت کو مستحکم کر نے اور قتل عثمان میں علی کی شرکت کا الزام لگانے کے لئے لوگوں کے ساتھ ہوگیا۔
ابن عباس جانتے تھے کہ امام ـ معاویہ کے ساتھ زیادہ نہیں رہ سکتے تھے بلکہ اس وقت تک کے لئے جب تک حضرت حالات پر قابو پالیتے ، معاویہ خوب جانتا تھا کہ علی کی اس کے ساتھ مصلحت وقتی طور پر ہے لہذا وہ قطعی طور پر امام ـ کی دعوت کو قبول نہ کرتا بلکہ مکروفریب سے کام لیتا۔
بہترین موقع جو چھوٹ جاتا
معاویہ کے پاس جو سب سے بڑا بہانہ اور حربہ تھا وہ عثمان کے خون کا بدلہ تھا اگر وہ ابتدا ہی میں اس موقع سے استفادہ نہ کرتا ، تو اس حربہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا۔
معاویہ نے عثمان کے خون آلود پیراہن کو عثمان کی بیوی ''نائلہ'' کی انگلیوں کے ساتھ جو شوہر کے دفاع میں کٹ گئیں تھیں شام کے منبر کے اوپر لٹکا دیا تاکہ شامیوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے آمادہ کرے جس کے لئے معاویہ نے دعویٰ کیا تھا کہ علی کے اشارے پر ہی عثمان کا قتل ہوا ہے اگر وہ ابتدا ہی میں حضرت علی کی دعوت کو قبول کرلیتا تو ہرگز وہ عثمان کے قتل کو امام ـ سے منسوب نہ کرپاتا اور عثمان کی مظلومیت کو امام ـ کے خلاف بیان نہ کرتا، معاویہ کے پاس عثمان کا قتل ایک ایساقوی حربہ تھا جو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف استعمال کرتا ، اور اس حربہ کا استعمال اس صورت میں ممکن تھاکہ جب علی کی دعوت کو قبول نہ کرتا کیونکہ امام کی بیعت کرنے کی صورت میں امام ـ کی رہبری کو صحیح ثابت کرتا اورادھر عثمان کا خون بھی خشک ہو جاتا اوراس طرح وہ بہترین موقع گنوا بیٹھتا۔
موروثی حکومت کی برقراری
کئی سال سے معاویہ نے اپنی چالاکی ،اور بے حساب و کتاب تحفے تحائف کے ذریعے، عظیم اور بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کر کے جواس کی حکومت کے خلاف تھے اور بہت زیادہ تبلیغ کر کے اور خلیفہ وقت کی نظر عنایت کو جذب کر کے ایک موروثی سلطنت و حکومت کا مقدمہ فراہم کرلیا تھا اور وہ عثمان کے قتل یا موت کا منتظر تھا کہ اپنی دیرینہ آرزؤں کو عملی جامہ پہنا سکے۔