2%

تیسری فصل

بے مثال فداکاری

ہر انسان کے اعمال و کردار کا پتہ اس کے فکر اور عقیدے سے ہوتا ہے ،اورقربانی اور فداکاری اہل ایمان کی علامت ہے .اگر انسان کا ایمان کسی چیز پر اس منزل تک پہونچ جائے کہ اسے اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھے توحقیقت میں اس چیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گا. اور اپنی ہستی اور تمام کوششوں کواس پر قربان کرے گا قرآن مجیدنے اس حقیقت کو اس اندازسے بیان کیاہے:

( انَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِامْوَالِهِمْ وََنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ُوْلَئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ ) (۱)

''سچے مومن تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر انہوں نے اس میں سے کسی طرح کا شک وشبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا یہی لوگ ( دعوائے ایمان میں ) سچے ہیں''

بعثت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں نے بہت زیادہ شکنجے اور ظلم و بربریت کواپنی کامیابی کی راہ میں برداشت کیا تھا جس چیز نے دشمنوں کو خدا کی وحدانیت کے اقرار سے روک رکھا تھا وہی بیہودہ خاندانی عقائد اوراپنے خداؤں پر فخر و مباہات اور قوم پرستی پر تکبر و غرور اور ایک قبیلے کا دوسرے قبیلے والوں سے کینہ و عداوت تھیم یہ تمام موانع مکہ اور اطرافیان مکہ میں اسلام کے نشر و اشاعت میں اس وقت تک رہے جب تک پیغمبر(ص) نے مکہ فتح کر نہ لیا تھا اور صرف اسلام کی قدرت کاملہ سے ہی یہ تمام موانع ختم ہوئے۔

مسلمانوں پر قریش کی زیادتی سبب بنی کہ ان میں سے کچھ لوگ حبشہ اور کچھ لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کریں، اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی جنہیں خاندان بنی ہاشم خصوصاً حضرت ابوطالب کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن جعفر بن ابی طالب مجبور ہوئے کہ بعثت کے پانچویں سال چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کریں اور ہجرت کے ساتویں سال (فتح خیبر کے سال) تک وہیں پررہیں۔

______________________

(۱)سورۂ حجرات، آیت ۱۵