7%

پڑے گا۔(۱)

معاویہ نے اپنے مشاور کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اپنی اور عمرو عاص کی دستخط کے ساتھ ایک خط عبد اللہ ابن عمر کو لکھا جس کی عبارت یہ تھی:

''حقائق اگر ہم پر پوشیدہ ہوں تو تم پر پوشیدہ نہیں ہیں، عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو امان دی ہے ،ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ حکم قرآن کے مطابق انہیں قتل کریں اور اگر علی عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم ان سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور اس وقت خلافت کے مسئلہ کو عمر بن خطاب کی طرح مسلمانوں کے درمیان شوری میں پیش کریں گے ہم ہرگز نہ خلافت کے طلبگار تھے او رنہ ہیں تم سے بس گذارش یہ ہے کہ قیام کرو او رہماری اس راہ میں مدد کرو، اگر ہم اور تم آپس میں متحد ہوگئے تو علی مرعوب ہو جائیں گے اور پھر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔(۲)

عبد اللہ بن عمر کا جواب

اپنی جان کی قسم، تم دونوںنے اپنی بصیرت اور حقیقت شناسی کو اپنے ہاتھوں سے کھودیا ہے اور حوادث کو فقط دور سے دیکھ رہے ہو اور تمہارے خط نے شک کرنے والوں کے شک و تردید میں اضافہ کردیا ہے تم لوگوںکا خلافت سے کیا ربط؟ معاویہ تم طلیق و آزاد شدہ ہو او رعمرو تم ایک متہم شخص او رغیر قابل اعتماد ہو، اس کام سے باز آجاؤ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔(۳)

عبد اللہ بن عمر نے جو خط معاویہ کو لکھا اس نے عمرو عاص کی مردم شناسی اور دور اندیشی کو ثابت کردیااور یہ بھی واضح کردیا کہ معاویہ اپنے قدیمی حریف کے کاموں تک نہیں پہونچ سکا ہے اور اگر بعض سیاسی مسئلوں میں برتری رکھتا ہے(مثلاً کشادہ دلی کے ساتھ مخالف کی بات سنتااو راگر اس کے سامنے آتا تو گذشتہ کونظر انداز کردیتا، اور اگر گفتگو ایک طرف ہو جاتی تو فوراً گفتگو کا عنوان بدل دیتا اور بحث کے اصل موضوع کو دوسرے انداز سے شروع کرتا) اس کے باوجود ابھی پورا مردم شناس نہیں ہورہے۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۹۔ ۸۸۔----(۲) وقعۂ صفین، ص ۶۳، ابن قتیبہ کے نظریہ کے مطابق اس خط کو معاویہ نے اہل مکہ او رمدینہ کے لئے لکھاتھا ۔ الامامة و السیاسة ص ۸۹۔----(۳)وقعة صفین ص۶۳،لیکن ابن قتیبہ نے معاویہ کے جواب میں ایک دوسرے خط کا ذکر کیا ہے،الامامة والسیاسةص۹۰۔۸۹