راہ کے انتخاب میں آزادی
عبداللہ بن مسعود(۱) کے ماننے والوں کا ایک گروہ امام علیہ السلام کے پاس پہونچا اور کہا : ہم لوگ آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ لوگوں سے دور اپنا پڑاؤ ڈالیں گے تاکہ آپ کے اور آپ کے مخالفوں کے کام پر نظر رکھیں ، جس وقت ہم دیکھیں گے کہ ایک گروہ غیر شرعی کام کررہا ہے یا تجاوز کررہا ہے تو اس کے خلاف جنگ کریں گے۔
امام علیہ السلام کی پوری حیات اور حکومت میں ایسی کوئی بات نہ تھی جوان کے لئے شک و تردید کا سبب بنتی لیکن دشمن کے بہکاوے نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈال رکھے تھے اور صالحین کو ابوسفیان سے جنگ کرنے کے سلسلے میں مردّد کر رکھا تھا ، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے فرمایا:'' مرحباً وأهلاً ، هٰذا هوالفقه فی الدین والعلم بالسنة من لم یرض بهذا فهو جائر خائن '' (۲) مبارک ہو تمہیں یہ کلام وہی دین فہمی اور حقیقت سے آشنا ئی اور پیغمبر اسلام
کی سنت سے آگاہی ہے جو شخص بھی اس کام پر راضی نہ ہو وہ ستم گر اور خائن ہے۔
عبداللہ بن مسعود کے دوستوں کا دوسرا گروہ بھی امام کے پاس آیا اور اس نے کہا : ہم آپ کی تمام فضیلتوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس جنگ کے شرعی ہونے کے سلسلے میں شک وتردید کررہے ہیں ، اگر بنا ہے کہ ہم لوگ بھی دشمن کے ساتھ جنگ کریں تو ہم لوگوں کو کسی دور مقام پر بھیج دیں تاکہ وہاں سے دین کے دشمنوں سے جہاد کریں ۔ امام علیہ السلام یہ سن کر ناراض نہ ہوئے بلکہ ربیع بن خثیم کی سرپرستی میں ان میں سے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک لشکر '' ری '' کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہاں اپنا وظیفہ انجام دیں اور اسلامی جہاد جو خراسان کے اطراف میں رونما ہوا ہے اس میں مدد کریں۔(۳)
_______________________________
(۱) عبداللہ بن مسعود حافظ قرآن اور صدر اسلام کے مسلمانوں میں سے ہے اور عثمان سے اس کی مخالفت کی روداد بہت طویل ہے ۳۲ ہجری میں مدینے میں انتقال ہوا، جنگ صفین کی آمادگی ۳۷ ہجری کے آخر میں ہوئی جس میں اس کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ کچھ گروہ جن لوگوں نے اس سے قرآن و احکام سیکھا تھا وہ لوگ باقی تھے۔ طبقات ابن سعد ج۳،ص ۱۶۰ (مطبوعہ بیروت)۔
(۲)وقعہ صفین ص، ۱۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶۔
(۳)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶ ۔