پندرہویں فصل
حضرت علی علیہ السلام کی میدان صفین کی طرف روانگی
کوفہ کی فوجی چھاؤنی مجاہدوں سے چھلک رہی تھی اور سب ہی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ چلنے کے لئے آپ کے حکم کے منتظر تھے۔ بالآخر امام علیہ السلام ۵ شوال ۳۶ ہجری بروز بدھ، چھاؤنی میں تشریف لائے اور سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
'' اس خدا کی حمد وثنا جب بھی رات آتی ہے تو پورے جہان میں تاریکی چھا جاتی ہے، اس خدا کی حمدوثناجس وقت ستارہ نکلے یا پوشیدہ ہوجائے اس خدا کی حمدوثناء کہ جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور اس کی عطا کے مقابلے میں کوئی اجر وثواب اس کے برابر نہیں ہے۔
ہاں اے لوگو، ہم نے اپنی فوج کے کچھ لوگوں کو پہلے روانہ کردیا ہے(۱) اور انہیں حکم دیا ہے کہ فرات کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں اور میرے حکم کے منتظر رہیں ، اب وہ وقت آپہونچا ہے کہ ہم دریا کو پار کریں اور ان مسلمانوں کی طرف روانہ ہوں جو دجلہ کے اطراف میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان لوگوں کو تم لوگوں کے ساتھ دشمن کی طرف روانہ کریں تاکہ تمہارے مدد گار رہیں ۔''(۲) ''عقبہ بن خالد ''(۳) کو کوفہ کا حاکم بنایا ہے خود کو اور تم کو میں نے رہا نہیں کیا ہے ( یعنی اپنے
اور تمہارے درمیان میں نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے )ایسا نہ ہو کہ کوئی جانے سے رہ جائے ، میں نے مالک بن حبیب یربوعی کو حکم دیا ہے کہ مخالفت کرنے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں کو رہا نہ کرے مگر یہ کہ تمام لوگوں کو تمہارے ہمراہ کردے ۔(۴)
اس وقت معقل بن قیس ریاحی ، جو کہ بہت ہی بہترین اور غیور شخص تھا اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:
_______________________________
(۱) امام علیہ السلام نے ۱۲ ہزار سپاہیوں کو زیاد بن نضر وشریح کی سپہ سالاری میں پہلے ہی روانہ کردیا تھا۔
(۲)نہج البلاغہ خطبہ۴۸، وقعہ صفین ص ۱۳۱ ( تھوڑے فرق کے ساتھ) امام علیہ السلام نے اس خطبہ کو کوفہ کی فوجی چھاؤنی ، کوفہ شہر کے باہر ۲۵ ،شوال ۳۷ ہجری کو بیان کیا تھا ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۰۱۔
(۳)عقبہ بن عامر ، مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۴---(۴)وقعہ صفین ص ۱۳۲