امام ـ کی فداکاری پر دو معتبر گواہ
تاریخ کی دو چیزیںاس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی کا عمل، ہجرت کی شب، فداکاری کے علاوہ کچھ اور نہ تھااور حضرت علی صدق دل سے خدا کی راہ میں قتل اور شہادت کے لئے آمادہ تھے ملاحظہ کیجئے۔
۱۔ اس تاریخی واقعہ کی مناسبت سے جو امام علیہ السلام نے اشعار کہے ہیں اور سیوطی نے ان تمام اشعار کواپنی تفسیر(۱) میںنقل کیا ہے جو آپ کی جانبازی اور فداکاری پر واضح دلیل ہے۔
وقیت بنفسی خیر من وطأ الحصیٰ-----و من طاف بالبیت العتیق وبالحجر
محمد لما خاف أن یمکروا به----- فوقاه ربی ذو الجلال من المکر
و بتّ اراعیهم متی ینشروننی-----و قد وطنت نفسی علی القتل والأسر
میں نے اپنی جان کو روئے زمین کی بہترین اور سب سے نیک شخصیت جس نے خدا کے گھر اور حجر اسماعیل کا طواف کیا ہے اسی کے لئے سپر (ڈھال) قرار دیا ہے۔وہ عظیم شخص محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم ہیں اور میں نے یہ کام اس وقت انجام دیا جب کفار ان کو قتل کرنے کے لئے آمادہ تھے لیکن میرے خدا نے انھیں دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔میں ان کے بستر پر بڑے ہی آرام سے سویااور دشمن کے حملہ کا منتظر تھا اور خود کومرنے یا قید ہونے کے لئے آمادہ کر رکھاتھا۔
۲۔ شیعہ اور سنی مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ خداوند عالم نے اس رات اپنے دو بزرگ فرشتوں، جبرئیل و میکائیل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں تم میں سے ایک کے لئے موت اور دوسرے کے لئے حیات مقرر کروں توتم میں سے کون ہے جوموت کو قبول کرے اوراپنی زندگی کودوسرے کے حوالے کردے؟ اس وقت دونوں فرشتوں میں سے کسی نے بھی موت کو قبول نہیں کیا اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ فداکاری کرنے کا وعدہ کیا پھر خدا نے ان دونوں فرشتوں سے کہا : زمین پر جاؤ اور دیکھو کہ علی ـنے کس طرح سے موت کو اپنے لئے خریدا ہے اور خود کو پیغمبر پر فدا کردیا ہے ،جاؤ علی ـ کودشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو۔(۲)
______________________
(۱) الدر المنثور، ج۳، ص ۱۸۰
(۲) بحار الانوار ج۱۹ ص ۳۹ ، احیاء العلوم غزالی