معاویہ کے جواب کی وضاحت
معاویہ اپنے احتجاجات میں ایک نظریہ پر قائم نہیں تھا،حالات کو دیکھ کر باتیں کرتا تھا۔کبھی امام علیہ السلام پر قتل کا الزام رکھتااور کسی صورت میں بھی اس سے انکار نہیں کرتالیکن اس گفتگو میں حضرت کو خون عثمان سے بری رکھا مگر یہی مسلسل کہتا رہا کہ امام نے خلیفہ کے قاتلوں کو اپنے پاس رکھا ہے جب کہ وہ اس طرح کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا کیونکہ نہ تو وہ خلیفہ کا وارث تھا اور نہ مسلمانوں کا حاکم ، قاتلوں کو بار بار اپنے اختیار میں لینے کا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے ، وہ جانتاتھا کہ عراق ومصر وحجاز کے انقلابی لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن چکے تھے اور عثمان کے قتل کے بعد بہت زیادہ اصرار کرکے امام کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔ یہی لوگ خلیفہ کے قاتل ہیں ( چاہے ان لوگوں نے خودقتل کیا ہے یا کسی کے ذریعے قتل کرایا ہے یا تبلیغ اور اپنی مرضی کے اظہار اور خوشحالی کے لئے اس قتل میں شامل رہے ہیں)ایسے عظیم گروہ کاسپرد کرنا پہلے تو ممکن نہ تھا بلکہ صرف اور صرف نظام حکومت کو ختم کرنے یا شورش برپا کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
معاویہ نے اس گفتگو میں خلیفہ کے قاتلوں کی سپردگی کو مرکزی حکومت کی پیروی کرنے کے لئے
کافی سمجھا ،جب کہ دوسری جگہوں پر اس نے بہت اصرار کیا کہ ضروری ہے کہ حکومت مہاجرین و انصار کی شوریٰ جس کے افراد مختلف شہروں میں رہتے ہیں ان کی رائے ومشورہ سے طے ہو ،اس طرح کی ضدونقیض باتیں کرنا معاویہ کے ابن الوقت ہونے کی نشاندہی ہے۔
اب ہم معاویہ اور علی علیہ السلام کے نمائندوں کے درمیان ہوئی گفتگو کے سلسلہ میں بیان کر رہے ہیں۔
شبث بن ربعی : اے معاویہ ، تجھے خدا کی قسم، اگر عمار یاسر کو تیرے حوالے کریں تو کیا تو انہیں قتل کردے گا؟ ( عمار جس کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایاہے ، اسے ظالم گروہ قتل کرے گا)
معاویہ : خدا کی قسم، اگر علی سمیہ کے بیٹے کو میرے حوالے کریں تو میں عثمان کے غلام نائل کے بدلے انہیں قتل کردوںگا ۔
شبث بن ربعی :آسمان کے خالق کی قسم ، تو نے عدالت سے کام نہ لیا اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تم ہرگز سمیہ کے بیٹے کو قتل نہیں کرسکتے مگر یہ کہ سروتن میں جدائی ہوجائے اور زمین اپنی پوری وسعت وکشادگی کے ساتھ تجھ پر تنگ ہوجائے۔