2%

شہادت پر فخر و مباہات

شہادت اور اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت پر مومنین اور قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے ہی افتخار کرتے ہیں اورمقد س مقصد کے تحت جنگ کرتے ہیں اور یہ افتخار اور فخرو مباہات ایک ایسی ثقافت ہے جو دوسری قوموں میں نہیں ، شہادت سے عشق و محبت قیام و جہاد کے لئے ایک بہترین محرّک اور علت ہے، شہید اپنی چند روزہ زندگی کو ابدی زندگی سے اسی عقیدے کی بنا پر تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ اپنے مقصد کے پیش نظر کسی کو نہیں پہچانتا ہے۔

جنگ صفین کے زمانے میں ایک دن فوج شام کے قبیلۂ بنی اسد کا ایک بہادر سپاہی میدان میں آیا اور جنگ کے لئے بلایا عراقی فوجی اس بہادر کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے اچانک ایک ضعیف شخص بنام''مقطّع عامری'' اٹھا تاکہ بنی اسد کے اس شخص سے لڑنے کے لئے میدان میںجائے،لیکن جب امام علیہ السلام متوجہ ہوئے تو اسے میدان جنگ میں جانے سے منع کردیا، ادھر اس شامی بہادر کیهَلْ مِنْ مبارز کی بلند آواز نے لوگوں کے کانوں کوبہرا کر دیا تھا۔ ادھر ہر مرتبہ و ہ ضعیف جو شہادت کا عاشق تھا اپنی جگہ سے مقابلے کے لئے اٹھتا تھا لیکن امام اُسے منع کردیتے تھے، اس ضعیف نے عرض کیا اے میرے مولا، اجازت دیجیے کہ اس جنگ میں شرکت کروں تا کہ شہید ہو جاؤں اور بہشت کی طرف جاؤں یا اسے قتل کردوںاور اس کے شرّ سے آپ کو امان دوں ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ اسے اجازت دی اور اس کے حق میں دعا کی۔