7%

جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی بہادری

امام علیہ السلام پوری فوج کے سردارتھے،آپ ، معاویہ اور عمر وعاص جیسے سرداروں کی طرح نہ تھے

کہ سب سے امن کی جگہ ، اور فوج کے بڑے بڑے طاقتوروں کی حفاظت میں رہتے اور خطرے کے وقت بھاگ جاتے ، بلکہ آپ نے اپنی سرداری کو فوج کے مختلف علاقوں میںگھوم کر نبھایا اور مشکل سے مشکل لمحوں میں بھی اپنے سپاہیوں سے آگے آگے جنگ اور زبردست حملوں میں کامیابی آپ کے مبارک اور طاقتور ہاتھوں سے ہوتی تھی۔اب ہم امام علیہ السلام کی بہادری کے چند نمونے یہاں ذکر رہے ہیں:ان واقعات کی تفصیلات ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین اور تاریخ طبری میں موجود ہے دلچسپی رکھنے والے قارئین ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

امام علیہ السلام تیروں کی بارش میں

امام علیہ السلام کی فوج کین میمنہ کا نظام عبد اللہ بن بدیل کے مارے جانے کی وجہ سے درہم برہم ہو گیا، معاویہ نے حبیب بن مسلمہ کو بچی ہوئی فوج کی سر کوبی کے لئے میمنہ پر معین کردیا ادھر اما م علیہ السلام کے میمنہ کی فوج کی سرداری سہیل بن حنیف کو ملی لیکن یہ نئی سرداری بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی میمنہ کے حیران و پریشان فوجی قلب لشکر سے ملحق ہوگئے جس کی رہبری خود امام علیہ السلام کررہے تھے، اس مقام پر تاریخ نے قبیلۂ ربیعہ کی تعریف اور قبیلۂ مضر کے بھاگنے اور ان کے خوف وہراس کے متعلق تذکرہ کیا ہے، امام علیہ السلام نے ایسے حالات میں قدم آگے بڑھایا اور خود میدان جنگ میں آئے۔

جنگ صفین کے خبر نگار زید بن وہب کا کہنا ہے کہ میں نے خود امام علیہ السلام کو تیروں کی بارش میں دیکھا کہ دشمن کے تیر آپ کی گردن اور شانے سے گزر رہے تھے، امام علیہ السلام کے بیٹوں کو خوف محسوس ہوا کہ امام علیہ السلام دشمن کے شدید باراں میں زخمی نہ ہوجائیں لہٰذا امام علیہ السلام کی مرضی کے بر خلاف سپر کے طور پر ان کے اطراف کھڑے ہوگئے لیکن امام علیہ السلام ان لوگوں کی خواہش کے بر خلاف آگے بڑھتے ہی رہے اور دشمن کو پچھاڑتے رہے اچانک امام کے بالکل سامنے آپ کے غلام کیسان اور ابوسفیان کا غلام احمر لڑتے لڑتے آگئے اور بالآخر کیسان قتل ہوگئے۔ ابو سفیان کا غلام اپنی کامیابی پر غرور کرتے ہوئے برہنہ تلوار کے ساتھ امام کی طرف آیا لیکن امام علیہ السلام نے پہلے ہی حملے