جنت و جہنم نہ ہو، تو کیا علی کے رکاب میں رہ کر معاویہ جگر خوار کے بیٹے کے ساتھ جنگ کرنا بہتر نہیں ہے اور کیوں ایسا نہ ہو کیونکہ تم لوگ امید وار ہو اس چیز کے جس کی امید رکھتے ہو۔
ابھی شہید کے بیٹے کی شعلہ ور گفتگو ختم نہ ہوئی تھی کہ ابو طفیل صحابی جو امام علیہ السلام کے مخلص شیعوں میں سے تھا ہاشم کے متعلق اشعار کہے جس کا صرف پہلا شعر یہاں نقل کررہے ہیں:
یَا هاشمَ الخیرِ جزیتَ الجنّة
قَاتلْتَ فی اللّٰه عدوَّ السنّة(۱)
(خدا کے بہترین بندے ہاشم تیری جزا جنت ہے اور تم نے اللہ کی راہ میں سنت الہی کے دشمنوں سے جہاد کیا۔رضوی)
لومڑی، شیر کے پنجے میں
جنگ کی شدت نے معاویہ کی فوج کے لئے زمین تنگ کر دی تھی اور جنگ چھیڑنے والوں نے لوگوں کی زبان کو بند کرنے کے لئے مجبور ہوئے کہ خود بھی میدان میں جائیں ، عمرو عاص کا ایک دشمن حارث بن نضرَ تھا اگر چہ دونوں ایک ہی مزاج کے تھے لیکن ایک دوسرے کے مخالف تھے حارث نے اپنے شعر میں عمر وپر اعتراض کیا کہ وہ کیوں خود علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کرتا فقط دوسروں کو میدان میں روانہ کرتا ہے، اس کے اشعار شام کی فوج کے درمیان منتشر ہو گئے عمر و مجبور ہوا کہ ایک ہی بار صحیح میدان جنگ میں امام علیہ السلام کے روبروہوا، لیکن میدان سیاست کی لومڑی نے میدان جنگ میں بھی مکر وفریب سے کام لیا جب امام علیہ السلام کے مقابلے میں آیا تو حضرت نے اسے مہلت نہیں دی اور نیزے کے زور سے اسے زمین پر گرادیا عمر و نے جو امام کی جواں مردی سے آگاہ تھا فوراًبرہنہ ہوکر اپنی جان بچائی امام نے اپنی آنکھوں کو بند کرلیا اور اس کی طرف سے منھ پھیر لیا۔(۲)
_______________________________
(۱) وقعہ صفین ص ۳۵۹۔
(۲) وقعہ صفین ص۴۲۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۶ ص۳۱۳۔ اعیان الشیعہ ج۱ص۵۰۱ ۔