2%

۲۔ وقت کا تعیین

خوارج کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فیصلہ کرنے والوں کے لئے وقت معین ہوا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ دونوں (عمروعاص اورابوموسیٰ )غیر جانب دار علاقہ (دومة الجندل) میں ماہ رمضان ختم ہونے تک اختلاف کے بارے میں اپنی اپنی رائے پیش کردیں اور یہ کام میدان صفین ہی میں اس دن کیوں نہیں انجام دیا گیا جس دن قرآن کو نیزہ بر بلند کیا گیا تھا؟!

حقیقتاً اس طرح کے اعتراضات کیا ان کی جہالت پر دلالت نہیں کرتے ؟ کیا ایسا عظیم فیصلہ ، اوروہ بھی اس وقت دونوں گروہ کا ہاتھ کہنی تک ایک دوسرے کے خون میں ڈوبا ہواتھا، کوئی آسان کام تھا کہ ایک دو دن کے اندر فیصلہ ہوجاتا اور دونوں گروہ اُسے قبول کرلیتے؟ یا اس کے لئے صبر وضبط کی ضرورت تھی تاکہ جاہل کی بیداری اور عالم کے استحکام کا امکان زیادہ پیدا ہو جائے اور امت کے درمیان صلح کا ذریعہ اور زیادہ فراہم ہوجائے۔

امام علیہ السلام اس جواب کے اعتراض میں فرماتے ہیں : ''وَاماقَو لکم:لم جعلت بینکم و بهینم أجلاً فی التحیکم؟فانما فَعَلتُ ذالک لِیتبیّنَ الجَاهِلُ ویتثبّتَ العالم ولَعلَّ اللّٰه اَن یصلحَ فی هذهِ الهُدنَةِ أمرهذه الامةِ ''(۱) اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے اپنے اور ان کے درمیان تحکیم کی مہلت کیوں دی تو میں نے یہ موقع اس لئے دیا کہ جاہل تحقیق کرے اور عالم ثابت قدم ہوجائے ، اور شاید خداوند عالم اس مہلت کے ذریعے اس امت کے حالات کی اصلاح فرمادے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۱