7%

حکمیت، آخری امید

مسلمانوںکے درمیان ،جنگ صفین سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے ایسے بنیادی مسائل تھے کہ جن کے حل کا ایک طریقہ ایسے فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنا تھا جوحقیقت بینی کے ساتھ مسائل کی دقیق اور بہترین تحقیق کریں اور پھر ان کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں۔ وہ مسائل یہ تھے:

۱۔ عثمان کا قتل ۔

۲۔ امام کے دوستوں پر خلیفہ کے قتل کا الزام ۔

۳۔ معاویہ کا دعویٰ کہ وہ عثمان کے خون کا ولی ہے ۔

بنیادی طور پر یہی مسائل تھے جس کی بنا پرجنگ صفین ہوئی اور ان مشکلوں کے حل کے لئے دو راستے تھے: پہلاراستہ یہ کہ دونوں فریق اپنے اختلافی مسائل کو مہاجرین اور انصار کے ذریعہ چنے ہوئے امام کے پاس پیش کریں اور وہ ایک آزاد شرعی عدالت میں خداکے حکم کو ان کے بارے میں جاری کریں اور یہ وہی راہ تھی جس کے بارے میں امام علیہ السلام نے صفین سے پہلے تاکید کی تھی اور اپنے خط میں معاویہ کو لکھا تھا: ''قد اکثرت فی قتلة عثمان فادخل فیمادخلَ فیه النّاسُ ثمّ حاکمَ القومَ الیّ أن احملک وایّا هم علی کتابِ اللّٰه ''(۱) اور تم نے عثمان کے قاتلوں کا باربار ذکر کیا ہے اور جس دائرہ اطاعت میں لوگ داخل ہوچکے ہیں تم بھی (بیعت کرکے) داخل ہوجاؤ پھر میری عدالت میں ان لوگوں کا مقدمہ پیش کرو تاکہ میں کتاب خدا کے مطابق تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کروں۔دوسراراستہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو ایک صلح پسند عدالت میں بھیج دیا جائے تاکہ وہاں منصف مزاج اورحقیقت پسند قاضی مشکل کا حل تلاش کریں اور فیصلہ کرتے وقت اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی اور واقعی مصلحتوں سے چشم پوشی نہ کریں اور عمروعاص جیسے لوگوں کی ہر طرح کی بن الوقتی اور مفاد پرستی سیاور ابو موسیٰ جیسے لوگوں کے کینہ وبغض سے دو رہوں ، ایسی عدالت میں امام علیہ السلام اپنے حقیقی مقصد تک پہونچ سکتے تھے اور مشکلات کا حل وفیصلہ کرسکتے تھے۔خلیفہ کا قتل بہت پیچیدہ مسئلہ نہ تھا ۔ اس کے عوامل و اسباب کئی سالوں پہلے سے وجود میں آ چکے تھے

______________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب نمبر۶۴