7%

۱۔ضحّاک بن قیس کی لوٹ مار

معاویہ کو خبر ملی کہ امیر المومنین شام کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز کریں ، معاویہ نے اس سلسلے میں خطوط لکھے اور اپنے نمائندوں کو شام کے تمام علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خط کے مضمون سے آگاہ کریں، شام کا ایک گروہ عراق کی طرف جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ حبیب بن مسلمہ نے ان لوگوں سے کہا : صفین سے آگے نہ بڑھنا کیونکہ ہم نے اسی جگہ پر دشمن غلبہ حاصل کیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے لیکن عمروعاص نے رائے دی کہ معاویہ اپنی فوج کے ساتھ عراق کی سرزمین کے اندر تک گھس جائے کیونکہ یہ کام شام کے فوجیوں کو حوصلہ اور قوت عطا کرے گا اور اہل عراق کے لئے ذلت کا باعث ہو گا معاویہ نے اس کی بات مان لی مگر کہا: شام کے لوگ صفین سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے ۔ ابھی اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ فوج کہاں قیام کرے کہ اچانک خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور خوارج کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی ہے اور وہ اپنی فوج کے سرکشوں پر کامیاب ہوگئے ہیں اور لوگوں سے کہا ہے کہ شام کی طرف روانہ ہوں لیکن ان لوگوں نے مہلت طلب کی ہے ۔ پھر عمارة بن عقبہ بن ابی معیط کا خط پہونچا جس میں اس نے لکھا کہ علی علیہ السلام کے دوستوں میں تفرقہ واختلاف اور فوج کے قاریوں اور عابدوں نے ان کے خلاف فساد برپا کر رکھا ہے اور ان کے درمیان شدید جنگ اور ان کی سرکوبی کے باوجود اختلاف ابھی بھی باقی ہے۔

ایسے حالات میں معاویہ نے ضحّاک بن قیس فہری کی سرداری میں تین سے چار ہزار لوگوںکو چنا اور حکم دیا کہ کوفہ جائیں اور جن قبیلوں کے لوگ امام کے مطیع وفرماں بردار ہیں انہیں غارت و برباد کردیں اور یہ کام بہت تیزی کے ساتھ انجام دیں اس طرح سے کہ اگر کسی شہر میں بالکل صبح سویرے داخل ہوں تو اسی دن شام کو دوسرے شہر میں رہیں اور کہیں پر بھی قیام نہ کریں کہ اپنے مقابلے والوں سے جنگ کرنی پڑے بلکہ جنگ و گریز اور لوٹ مارکرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھیں۔