2%

نتیجہ تھی. یہ عظیم المرتبت جانثار، یہ حقیقی فداکار مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کی ذات گرامی ہے.جنگ کی ابتدا میں قریش کے بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچم اٹھانے والے ۹ افراد ایک کے بعد ایک مولائے کائنات کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میںشدید رعب بیٹھ گیا اور ان کے اندر ٹھہر نے اور مقابلے کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہی۔(۱)

امام ـ کی جانثاری پر ایک نظر:

معاصر مصری مؤرخین مجنھوں نے اسلامی واقعات کا تجزیہ کیا ہے حضرت علی کے حق کو جیسا کہ آپ کے شایان شان تھا یا کم از کم جیساکہ تاریخ نے لکھا ہے ادانہیں کیا ہے، اور امیر المومنین کی جانثاری کو دوسرے کے حق میں قرار دیا ہے اس بنا پر ضروری ہے کہ مختصر طور پر حضرت امیر کی جانثاریوں کوانہی کے مأخذ سے بیان کروں۔

۱۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ(۲) میں لکھا ہے:پیغمبر چاروں طرف سے قریش کے لشکر میں گھر گئے تھے ،ہر گروہ جب بھی پیغمبر پر حملہ کرتا توحضرت علی پیغمبر کے حکم سے جب کچھ قتل ہوجاتے تھے تو باقی راہ فرار اختیار کرتے تھے .ایسا جنگ احد میں کئی مرتبہ ہوا. اس جانثاری کی بنیاد پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور حضرت علی کے ایثار کوپیغمبر کے سامنے سراہا اور کہا:یہ ایک بلند ترین جانثاری ہے جس کوانھوں نے کر دکھایا ہے. رسول خدا نے جبرئیل امین کی تصدیق کی اور کہا:''میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں''کچھ ہی دیر کے بعد میدان میں ایک آواز سنائی دی جس کا مفہوم یہ تھا:

لَاسَیْفَ اِلاّٰ ذُوْ الْفِقٰارِ

وَلَا فَتٰی اِلاّٰ عَلی

ذو الفقار جیسی کوئی تلوار نہیں اور علی ـ کے جیسا کوئی جوان نہیں ۔

ابن ابی الحدید اس واقعہ کی مزید شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہ گروہ جس نے پیغمبر پر حملہ کیا تاکہ ان کو قتل کردیں اس میں پچاس آدمی تھے اور علی ـنے جوکہ باپیادہ

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۲۵۰

(۲)تاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۰۷