3%

آیات ۱۶۰،۱۶۱،۱۶۲،

۱۶۰۔( فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ اٴُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ اللهِ کَثِیرًا )

۱۶۱۔( وَاٴَخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَاٴَکْلِهِمْ اٴَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ مِنهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا ) ۔

۱۶۲( لَکِنْ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا اٴُنزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِیمِینَ الصَّلاَةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴُوْلَئِکَ سَنُؤْتِیهِمْ اٴَجْرًا عَظِیمً )

ترجمہ

۱۶۰۔اس ظلم کی وجہ سے جو یہودیوں نے کیا نیز راہ سے خدا سے بہت زیادہ روکنے کی بناپر کچھ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں ہم نے حرام قرار دے دیں ۔

۱۶۱۔ اور( اسی طرح ) ان کی سودخوری (بھی ) ، جبکہ ابھیں اس سے منع کردیاگیا اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانے کی وجہ سے اور ان میں سے کافروں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے

۱۶۲۔لیکن ان میں وہ لوگ جو علم میں راسخ ہیں اور وہ جو ایمان لائے ہیں ، ان تمام چیزوں پر جو تم پر نازل ہوئی ہیں ان پر جو تم سے پہلے نازل ہوچکی ہیں ایمان لاچکے ہیں اور وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوة ادا کرتے ہیں اور وہ جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے ہیں ہم جلد ہی ان سب کو اجر عظیم دیں گے ۔

یہودیوں میں سے صالح اور غیر صالح افراد کا انجام

گذشتہ آیت میں یہودیوں کی قانون شکنی کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔مند رجہ بالا آیات میں ان کے کچھ اور ناشائتہ اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ان سزاؤں کاتذکرہ ہے جو ان کے اعمال کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں ان کے دامن گیر ہوئیں اور ہوں گی ۔

پہلے ارشاد فرمایا : اس ظلم وستم کی وجہ سے جو یہودیو ں نے کیا اور لوگوں کو راہ ِ خدا سے باز رکھنے کی وجہ سے کچھ پاک وپاکیزہ چیزیں ہم نے ان پر حرام کردیں اور انھیں ان سے استفادہ سے محروم کردیا( فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ اٴُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ اللهِ کَثِیرًا )

نیز اس بنا پر کہ وہ سودکھاتے تھے حالانکہ انھیں اس سے منع کیا گیا تھا اوراسی طرح لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے ان کے یہی کام ان کی اس محرومیت کا سبب بنے (واخذھم الربوا و قد نھو ا عنہ واکلھم اموال النا س بالباطل )۔

اس دنیا وی سزا کے علاوہ ہم انھیں اخروی سزاؤ ں میں بتلا کریں گے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے( وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ مِنْهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا ) ۔

چند اہم نکا ت

۱۔ یہودیوں کے لیے طیّبا ت کی حرمت :

طیبا ت کی حرمت سے مراد وہی ہے جس کی طرف سورہ انعام آیة ۱۴۶ میں اشارہ ہوا ہے ، جہاں فرمایا گیا ہے :

ہم نے یہودیو ں کے ظلم وستم کی وجہ سے ہر جانور جس کا سم پھٹا ہوا نہ ہو ان پر حر ام قرار دے دیا ۔ نیز گائے اور بھیڑ بکری کی چربی بھی کہ جس سے انھیں لگاؤتھا ان پر حرام کردی مگر اس کا وہ حصّہ جو جانور کی پشت یا آنتوں کے اطراف میں ہو یا ہڈی کے ساتھ ملا ہوا ہو ۔

لہٰذ ا مذکورہ حرمت تحریم تشر یعی وقانونی تھی ، تحریم تکوینی نہ تھی ۔ یعنی یہ نعمتیں طبعی اور فطری طور پر تو ان کے پاس تھیں ، لیکن شرعاً انھیں ان کے کھانے سے روک دیا گیا تھا ۔

موجو دہ تورات کے سفر لا دیا ن کی گیارہویں فصل میں ان میں سے کچھ چیز وں کی حرمت کا ذکر موجود ہے لیکن یہ بات اس میں نہیں کہ حرمت سزا کے طور پر تھی ۔(۱)

۲۔ کیا یہ حرمت عمومی تھی ؟

یہ حرمت ظالم لوگو ں کے لیے ہی تھی سب کے لیے ۔۔۔۔۔اس سلسلے میں مند رجہ بالا آیت اور سورہ انعام کی آیت ۱۴۶ کے ظاہری مفہوم ظالموں کے لیے تو یہ حرمت سزا کے طور پر تھی جبکہ نیک لوگ جو کم تعدا د میں تھے ان کے لیے آزمائش اور انضبا ط کے پہلوسے تھی ۔

بعض مفسیرین کا خیال ہے کہ یہ تحریم فقط ستمگروں کے لیے تھی اور بعض روایات میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے تفسیر برہان میں سورئہ ِ انعا م کی آیت ۱۴۶ کے ذیل میں امام صادق سے منقو ل ہے ، آپ نے فرمایا :

بنی اسرائیل کے حکام اور رؤ سا فقیرا ور نادار لوگوں کو پر ندوں کے گوشت اور جانور کی چربی کھانے سے روکتے تھے ۔ خدا نے ان کے اس ظلم وستم کی وجہ سے ان چیز وں کو خود ان پر حرام قرا ر دے دیا ۔

۳۔ سود کی حرمت قبل از اسلام سے ہے :

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سود کی حرمت اسلام ہی سے امخصو ص نہیں ہے ۔ بلکہ یہ گذشتہ قو موں میں بھی حرام تھا اگر چہ موجودہ تحریف شدہ تورات میں اس کی حرمت برادان دینی میں حرا م شمار کی گئی ہے ۔(۲)

یہودیو ں میں سے اہل ایمان

زیر نظر آیات میں سے آخری آیت میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے جس کا قرآن نے بارہا اظہا ر کیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن اگر یہودیوں کی مذمت کرتا ہے تو نسلی اور گروہی جھگڑے کے حوالے سے نہیں ہے ۔ اسلام کسی قوم وقبیلے کی مذمت قوم اور قبیلے کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اس مذمت کا ہدف صرف آلودئہ گنا ہ اور منحرف لوگ ہوتے ہیں اسی لیے اس آیت میں یہودیوں میں سے صاحب ِ ایمان اور پاک دامن افراد کو مستثنی قرار دیا گیا ہے اور ان کی تعریف کی گئی ہے اور انھیں اجر عظیم کی بشا رت دی گئی ہے قرآن کہتا ہے لیکن یہودیوں میں سے وہ لگ جو علم ودانش میں راسخ ہیں خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ تم سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لے ائیں ہیں ہم بہت جلد انھیں اجر عظیم سے نوا زیں گے( لَکِنْ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا اٴُنزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِیمِینَ الصَّلاَةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴُوْلَئِکَ سَنُؤْتِیهِمْ اٴَجْرًا عَظِیمًا ) ۔(۳)

۳۔”راسخون فی علم “ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۲۵۵ (اردو ترجمہ ) میں تفصیلی وضاحت کی جاچکی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کے بڑے لوگوں میں ایک جماعت اسلام کے ظہور اور اس کی حقا نیت کو دیکھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی اور دل وجان سے اس کی حمایت کی یہ لوگ پیغمبر اسلام اور باقی مسلمانوں کے لیے قابل احترا م قرار پائے

____________________

۱۔تفسیر نمو نہ جلد سوم کی طرف رجوع کیجیے (دیکھیے ۲۹ اردو ترجمہ )

۲ ۔تفسیر برہان ج ۱ ص ۵۵۹۔

۳ ۔تو را ت ، سفر تثنیہ فصل ۲۳ جملہ ۲۰۰۱۹ برادارانِ دینی سے ظاہر اً اولاد حضرت اسماعیل مراد ہے (متر جم )