3%

آیات ۱۷۲،۱۷۳

۱۷۲۔( لَنْ یَسْتَنکِفَ الْمَسِیحُ اٴَنْ یَکُونَ عَبْدًا لِلَّهِ وَلاَالْمَلاَئِکَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَنْ یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ إِلَیْهِ جَمِیعًا ) ۔

۱۷۳۔( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیهِمْ اٴُجُورَهُمْ وَیَزِیدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاٴَمَّا الَّذِینَ اسْتَنکَفُوا وَاسْتَکْبَرُوا فَیُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَلاَیَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِیًّا وَلاَنَصِیر )

ترجمہ

۱۷۲۔ مسیح اس سے ہرگز پہلو تہی اور انکار نہیں کرتا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ اس کے مقّرب فرشتے (اس کاانکار کرتے ہیں ) اور جو اس کی عبودیت اور بندگی سے پہلو تہی کرے اور تکبر کرے ، بہت جلد وہ ان سب کو اپنی طرف محشور کرے گا (انھیں قیامت میں اٹھا ئے گا ) ۔

۱۷۳۔ باقی رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال انجام دیے ان کی پوری اجزاانھیں دے گا اور اپنے فضل وبخشش سے انھیں مزید دے گا ۔ لیکن جنھو ں نے پہلو تہی کی تکبر کیا انھیں دردناک سزادے گا اور وہ خدا کے علاوہ اپنے لیے کوئی سر پر ست اور یا ور مددگا ر نہیں پا ئیں گے ۔

شانِ نز ول

بعض مفسرین نے ان آیات اکے سلسلے میں ایک شانِ نزول روایت یہ ہے :

نجرا ن کے کچھ عیسائی پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انھوں نے عرض کیا : ۔

آپ ہمارے پیشوا پر کیو ں تنقید کرتے ہیں ؟

پیغمبر اسلا منے فرفایا : میں نے ان پر کون ساعیب لگایا ہے ؟

وہ کہنے لگے :۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسو ل ہیں ۔

اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور انھیں جواب دیا گیا ۔

عیسیٰ خدا کے بندے ہیں

اگر چہ زیر نظر آیات کی مخصوص شانِ نزول ہے اس کے باوجود وہ گذشتہ آیات سے مربوط ہیں جن میں الوہیت مسیح کی نفی اور مسئلہ تثلیث کا ابطال کیا گیا ہے ۔

پہلے تو ایک اور پہلو سے الو ہیت مسیح کی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : تم عیسی کی الو ہیت کاکیسے عقیدہ رکھتے ہو جبکہ نہ عیسی پروردگار سے پہلو تہی کرتے ہیں نہ خدا کے مقّرب فرشتے اس سے پہلو تہی کرتے ہیں( لن یستنکف المسیح ان یکون عبداً الله ولا الملئکة المقربون ) مسلّم ہے کہ جو شخص خود عبادت کرنے والا ہو اس کے معبود ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنی ہی عبادت کرے یا یہ کہ عابد ومعبود اور بندہ وخدا یک ہی ہوں ۔

یہ بات قابل ِ تو جہ ہے کہ امام علی بن موسیٰ رضا سے ایک احدیث مروی ہے آپ نے کجروعیسائیوں کو جو حضرت عیسی کی الوہیت کے مدعی تھے مغلو ب کرنے کے لیے ان کے ایک بزرگ جا ثلیق سے فرمایا : عیسی کی باقی با تیں تو اچھی ہیں ان میں صرف ایک عیب تھا اور وہ یہ کہ وہ زیادہ عبادت نہیں کرتے تھے ۔

وہ عیسائی جنھجلااٹھا اور امام سے کہنے لگا : آپ کتنی غلط بات کہہ رہے ہیں ۔ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ وہ سب سے زیادہ عبادت گذارتھے ۔

امام نے فوراً فرما یا : وہ کس کی عبادت اکرتے تھے ؟ کیا خداکے علاوہ کسی کی عبادت کرتے تھے ؟ لہذا خود تیر ے اعتراف کے مطابق وہ خدا کے بندے ، مخلوق اور اس کی عبادت کرنے والے تھے ، نہ کہ معبود اور خدا تھے ۔

وہ عیسائی خاموش ہوگیا اور کوئی جوا ب نہ دے سکا۔ ۱ منا قب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۳۵۲

اس کے بعد قرآن مزید یہ کہتا ہے : جو لوگ پروردگار کی عبادت اور بندگی سے پہلو تہی کریں اور اس کی وجہ تکّبر ہوتو خدا ان سب کوقیامت کے دن حاضر کرے گا اور ہر ایک کومناسب سزادے گا( وَمَنْ یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ إِلَیْهِ جَمِیعًا )

اس دن اہل ایمان اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کی مکمل جزا دے گا اور اپنے فضل و رحمت سے اس پر اضافہ کرے گا اور جنھوں نے بندگی سے انکار کیا اور راہِ تکبّر اختیار کی وہ دردناک عذاب میں گرفتار ہوں گے اور خدا کے سواانھیں کوئی سر پرست ، حامی اور مد گار نہیں ملے گا( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیهِمْ اٴُجُورَهُمْ وَیَزِیدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاٴَمَّا الَّذِینَ اسْتَنکَفُوا وَاسْتَکْبَرُوا فَیُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَلاَیَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِیًّا وَلاَنَصِیر ) ۔

دو اہم نکات

۱۔ استنکفو ا اور استکبرو ا :

استنکاف کا معنی ہے کسی چیز سے امتنا ع اور کسی سے پر ے ہٹ جانا ۔ اس لیے یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے لیکن اِستکبروا کہہ کر اسے محدود کردیا گیا ہے کیونکہ خدا کی بندگی سے پہلو تہی اور امتناع کھبی جہل ونادانی کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی تکبّر ، خود بینی اور سر کشی کی بناپر ، اگر چہ یہ دونوں برے ہیں لیکن دوسرا کئی گنا بد تر ہے ۔

۲۔ ملا ئکہ انکا رِ عبادت نہیں کرتے :

ملا ئکہ کے انکار عبادت نہ کرنے کا تذکرہ یا تو اس لیے ہے کہ عیسائی تین معبودوں کے قائل تھے (باپ ،بیٹا ، اور روح القدس ، یا دوسر ے لفظوں میں باپ خدا ،بیٹا خدا اور دونوں کے درمیا ن واسطہ ) اس لیے اس آیت میں قرآن چاہتا ہے کہ دوسرے معبودوں یعنی مسیح اور روح القدس فرشتہ ہر دو کی نفی کی جائے تاکہ ذات پروردگار کی توحید ثابت اہوجائے یا پھر یہ اس بنا ء بناپر ہے کہ آیت میں عیسائیوں کے شرک کاجواب دیتے ہوئے عرب بت پر ستوں کے شرک کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو فرشتوں کو خداکی اولا د اور پر وردگار کا جز و سمجھتے تھے یہ انھیں بھی ایک جواب ہے۔

ملا ئکہ کے بارے میں ان دونوں بیانات کی طرف توجہ کرنے سے اس بحث کی گنجائش نہیں رہتی کہ کیا زیر نظر آیت انبیا ء پر ملا ئکہ کی افضلیت پر دلالت اکڑتی ہے یا نہیں ، کیونکہ آیت تو تثلیث کے تیسرے اقنو م یا مشرکین عرب کے معبودوں کی نفی کے لیے ہے نہ کہ ملا ئکہ کی مسیح پر فضیلت بیان کرنے کے لیے ہے ۔