9%

آیت ۴۴

۴۴۔ إ( ِنَّا اٴَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًی وَنُورٌ یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ اٴَسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْاٴَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ اللهِ وَکَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَاءَ فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِی وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ ) ۔

ترجمہ ۔

۴۴۔ ہم نے تورات کو نازل کیا کہ جس میں ہدایت اور نور تھا اور انبیاء کہ جو حکم خدا کے سامنے تسلیم تھے اس کے مطابق یہودیوں میں فیصلہ کرتے تھے اور (اسی طرح)علماء بھی اس کتاب کے مطابق حکم کرتے تھے کہ جو ان کے سپرد تھی اور وہ اس پر گواہ تھے اس بنا پرت(آیات الہٰی کے مطابق فیصلہ کرنے کے بارے میں ) لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو او رمیری آیات معلوم قیمت پر نہ بیچو او رجو لوگ خدا کے نال کردہ احکام کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔

ہم نے تورات نازل کی

زیر نظر اور آئندہ آیت گذشتہ بحث کی تکمیل کرتی ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی آسمانی کتاب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہ ، ہدایت حق کی طرف راہنمائی کے لئے اور نور جہل و نادانی کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے( إِنَّا اٴَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًی وَنُورٌ ) ۔

اس بنا پر وہ پیغمبر ان ِ خدا جو حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہو ئے تھے اور نزول تورات کے بعد مصروف کارتھے، سب یہودیوں کے لئے اس کے مطابق حکم کرتے تھے( یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ اٴَسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا ) ۔

صرف وہی ایسانہ کرتے تھے بلکہ ” یہودیوں کے بزرگ علماء اور صاحب ِ ایمان پاکباز داشور اس آسمانی کتاب کے ہی مطابق فیصلہ کرتے تھے جو ان کے سپرد کی گئی تھی اور وہ اس پر گواہ تھے( وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْاٴَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ اللهِ وَکَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَاءَ ) ۔(۱)

یہاں روئے سخن اہل کتاب کے ان علماء کی طرف ہے جو اس زمانے میں موجود تھے ار شاد ہوتا ہے : لوگوں سے نہ ڈرو اور خدا کے حقیقی احکام بیان کرو اور چاہے تو یہ کہ میر مخالفت سے ڈرو کیونکہ اگر تم نے حق کو چھپا یا تو تمہیں سزادی جائے گی( فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ ) ۔اور اسی طرح آیاتِ خدا کو کم قیمت پرنہ بیچو( وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا ) ۔

در اصل حق کو چھپا نے کی وجہ یا لوگوں کا خوف ہے یا پھر ذاتی مفاد کا حصول بہر حال جو کچھ بھی ہو ضعف ایمان کی دلیل او رمقام ِ انسانیت کی نفی ہے اور مندجہ بالا جملوں میں دونوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔

ایسے اشخاص کے بارے میں آیت کے آخر میں قطعی فیصلہ صادر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :

جو لوگ احکام ِ خدا کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ ) ۔

واضح ہے کہ حکم خدا کی مطابق فیصلہ نہ کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خاموش رہا جائے اور بالکل کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور اپنی خاموشی سے لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیا جائے اور یہ بھی کہ بات کی جائے اور حکم خدا کے خلاف فیصلہ دیاجائے ۔

یہ بھی واضح ہے کہ کفر کے لئی مراتب اور مختلف درجات ہیں اور یہ اصل وجود خدا کے انکار سے شروع ہو تا ہے اور اس کی نافرمانی اور معصیت تک جا پہنچتا ہے ۔ کیونکہ ایمان ِ کامل انسان کو حکم ِ خدا کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور وہ جو عمل نہیں کرتے ان کا ایمان کا مل نہیں ہے ۔

یہ آیت ہر امت کے علماء اور داشنوروں پر عائد ہو نے والی بھاری ذمہ داری ار جوابدہی کو واضح کرتی ہے ۔ آیت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے گرد رونما ہونے والے معاشرتی طوفان اور حوادث کا مقابلہ کریں ۔ کجرویوں کے خلاف فیصلہ کن انداز میں ڈٹ جائیں اور کسی سے خوف نہ کھائیں ۔

____________________

۱۔ ”ربانی “ کے معنی اور اس کے اصلی مادہ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۳۸۷ ( اردو ترجمہ ) میں بحث کی جاچکی ہے نیز ” احبار “ ” حبر “ ( بر وزن “ فکر )کی جمع ہے اور اسی طرح بر وزن ” ابر “ ہو تو اس کا منعی ہے ” نیک اثر “ بعد ازاں یہ لفظ ایسے علماء کے بارے میں استعمال ہو نے لگا جو معاشرے میں اچھا اور نیک اثر رکھتے ہوں دوات کی سیاہی کو بھی ”حبر “ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ نیک آثار رکھتی ہے ۔