آیات ۵۱،۵۲،۵۳
۵۱۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَی اٴَوْلِیَاءَ بَعْضههُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَهَُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔
۵۲۔( فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِم یَقُولُونَ نَخْشَی اٴَنْ تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَی اللهُ اٴَنْ یَاٴْتِیَ بِالْفَتْحِ اٴَوْ اٴَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَی مَا اٴَسَرُّوا فِی اٴَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ ) ۔
۵۳۔( وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَهَؤُلاَءِ الَّذِینَ اٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ فَاٴَصْبَحُوا خَاسِرِینَ ) ۔
ترجمہ
۵۱۔اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا سہارا نہ بناو وہ تو ایک دوسرے کے لئے سہارا ہیں اور جو ان پر بھروسہ کرتے ہیں وہ انھی میں سے ہیں اور خدا ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔
۵۲۔ تم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہو جن کے دلوں میں بیماری ہے جو ( ایک دوسرے کی دوستی میں ) ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ڈرہے کہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے( کہ جس میں ہمیں ان کی مدد کی ضرورت پڑے) شاید خدا کی طرف سے کوئی او رکامیابی یا واقعہ ( مسلمانوں کے فائدے میں ) رونما ہوجائے اور یہ لوگ اپنے دلوں میں جو کچھ چھپائے ہوئے ہیں اس پر پشمان ہیں ۔
۵۳۔ اور وہ جو ایما ن لائے ہیں کہتے ہیں کیا یہ وہی ( منافق) ہیں جو بڑی تاکید سے قسم کھاتے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ( ان کا معاملہ یہاں تک کیوں آپہنچا کہ) ان کے اعمال نابود ہو گئے اور وہ خسارے میں جا پڑے۔
شان نزول
بہت سے مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جنگ ِ بدر کے بعد عبادہ بن صامت خزرجی پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یہودیوں میں کچھ میرے ہم پیمان ہیں جو تعداد میں بہت ہیں اور طاقت ور ہیں ، اب جبکہ وہ ہمیں جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں اور مسلمانوں کا معاملہ غیر مسلموں سے الگ ہو گیا ہے تو میں ان کی دوستی اور عہد و پیمان سے برات کا اظہار کرتا ہوں او رمیرا ہم پیمان صرف خدا اور اس کا رسول ہے ۔
عبداللہ بن ابی کہنے لگا : میں تو یہودیوں کی ہم پیمانی سے برات نہیں کرتا کیونکہ میں مشکل حوادث سے ڈرتا ہوں اور مجھے ان لوگوں کی ضرورت ہے ۔
اس پرپیغمبر اکرم نے فرمایا : یہودیوں کی دوستی کے سلسلہ میں مجھے جس بات کا ڈر عبادہ کے بارے میں تھا وہی تیرے متعلق بھی ہے ( اور اس دوستی اور ہم پیمانی کاخطرہ اس کی نسبت تیرے لئے بہت زیادہ ہے ) ۔
عبد اللہ کہنے لگا : اگر ایسی بات ہے تو میں بھی قبول کرتا ہوں اور ان سے رابطہ منقطع کرلیتا ہوں ۔
اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور مسلمانوں کو یہودو نصاریٰ سے دوستی کرنے سے ڈرا یاگیا ۔
تفسیر
مندر جہ بالا آیات مسلمانوں کو یہودو نصاریٰ کی دوستی اور ہم کاری سے شدت کے ساتھ ڈرائی ہیں ۔ پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا سہارا اور ہم پیمان نہ بناو(یعنی خدا پر ایمان کا تقاضا ہے کہ مادی مفاد کے لئے ان سے ہم کاری اور دوستی نہ کرو) یَا( اٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَی اٴَوْلِیَاءَ ) ۔
” اولیاء “ ”ولی “ کی جمع ہے اور” ولایت“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے دو چیزوں کے درمیان بہت زیادہ قرب ، نزدیکی اور دوستی ۔ نیز اس میں ہم پیمان ہونے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے لیکن آیت کی شان ِ نزول اور باقی موجودی قرائن کو مد نظر رکھا جائے تو پھر اس سے مراد یہاں معنی نہیں کہ مسلمان یہود و نصاریٰ سے کوئی تجارتی اور سماجی رابطہ نہ رکھیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان سے عہد و پیمان نہ کریں ار دشمنوں کے مقابلے میں ان کی دوستی پر بھروسہ نہ کریں ۔
عہد و پیمان کا مسئلہ اس زمانے میں عربوں میں بہت رائج تھا اور اسے ” ولاء “ سے تعبیر کرتے تھے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہاں ” اہل کتاب “ نہیں کہا گیا بلکہ یہود و نصاریٰ کہا گیا ہے ۔ شاید یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر وہ اپنی آسمانی کتاب پر عمل کرتے تو پھر تمہارے اچھے ہم پیمان ہوتے لیکن ایک دوسرے سے ان کا اتحاد آسمانی کتاب کی رو سے نہیں ہے بلکہ سیاسی اور نسلی اغراض پر مبنی ہے ۔
اس کے بعد ایک مختصر سے جملے سے اس نہی کی دلیل بیان فرمائی گئی ہے :
ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک اپنے ہم مسلک لوگوں کے دوست اور ہم پیمان ہیں( بَعْضههُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ) ۔یعنی جب تک ان کے اپنے اور ان کے دوستو ں کے مفادات بیچ میں ہیں وہ تمہاری طرف ہر گز متوجہ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی بھی ان سے دوستی کرے اور عہد و پیمان باندھے وہ اجتماعی او رمذہبی تقسیم کے لحاظ سے انھی کا جزء شمار ہو گا( وَمَنْ یَتَوَهَُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ) ۔
اور اس میں شک نہیں کہ خدا ایسے ظالم افراد کو جو اپنے ساتھ اور اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ خیانت کریں اور دشمنوں پر بھروسہ کریں ، ہدایت نہیں کرے گا( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔
بعد والی آیت میں ان بہانہ تراشیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بیمار فکر اراد غیر سے اپنے غیر شرعی روابط کے لئے پیش کرتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : جن جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اصرار کرتے ہیں کہ انھیں اپنے لئے سہارا سمجھیں اور انھیں اپنا ہم پیمان بنائیں اور ان کا عذر یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ قدرت طاقت ان کے ہاتھ میں آجائے اور پھر ہم مصیبت میں گرفتار ہو جائیں( فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِم یَقُولُونَ نَخْشَی اٴَنْ تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ ) ۔(۱)
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے : جیسے انھیں اس بات کا احتمال ہے کہ کسی دن طاقت یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاتھ آجائے گی اسی طرح انھیں یہ خیال بھی آنا چاہئیے کہ آخر کار ہو سکتا ہے کہ خدا مسلمانوں کو کامیاب کرے اور قدرت و طاقت ان کے ہاتھ آجائے او ریہ منافق اپنے دلوں میں جو کچھ چھپائے ہوئے ہیں اس پر پشمان ہیں( فَعَسَی اللهُ اٴَنْ یَاٴْتِیَ بِالْفَتْحِ اٴَوْ اٴَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَی مَا اٴَسَرُّوا فِی اٴَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ ) ۔
اس آیت میں در حقیقت انھیں دو طرح سے جواب دیا گیا ہے : پہلا یہ کہ ایسے خیالات بیماردلوں سے اٹھتے ہیں اور ان لوگوں کے دلوں سے کہ جن کا ایمان متزلزل ہے اور وہ خدا کے بارے میں بد گمانی رکھتے ہیں ورنہ کوئی صاحب ایمان ایسے خیالات کو اپنے دل میں راہ نہیں دیتا اور دوسرا یہ کہ فرض کریں کہ ان کی کامیابی کا احتمال ہو بھی تو کیا مسلمانوں کی کامیابی کا احتمال نہیں ہے ؟
جو کچھ بیان کیا گیا ہے ، اس کی بنا پر ” عسیٰ “ کا مفہوم ہے ” احتمال “ اور ” امید“ اس سے اس لفظ کا ہر جگہ استعمال ہونے والا اصلی معنی بر قرار رہتا ہے ۔ لیکن عام طور پر مفسرین نے یہاں خدا کی طرف سے مسلمانوں کے لئے قطعی وعدہ مراد لیا ہے جو کہ لفظ ”عسیٰ “ کے ظاہری مفہوم سے مناسبت نہیں رکھتا ۔
لفظ ” فتح“ کے بعد ” او امر من عندہ“کے جملے سے مراد یہ ہے کہ ممکن ہے مسلمان آئندہ زمانے میں اپنے دشمنوں پرجنگ اور اس میں کامیابی کی وجہ سے غالب آجائیں یاجنگ کے بغیر ان میں اتنی قدرت پیدا ہو جائے کہ دشمن جنگ کئے بغیر گھٹنے ٹیک دے دوسرے لفظوں میں لفظ ” فتح“ مسلمانوں کی فوجی کامیابیوں کی طرف اشارہ ہے اور” امر من عندہ “اجتماعی ، اقتصادی اور دیگر کامیابیوں کی طرف اشارہ ہے ۔ لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ خدا یہ احتمال بیان کررہا ہے اور وہ آئندہ کی وضع و کیفیت سے آگاہ ہے لہٰذا یہ آیت مسلمانوں کی فوجی ، اجتماعی اور اقتصادی کامیابیوں کی طرف اشارہ ہی سمجھی جائے گی ۔
آخری آیت میں منافقین کے انجام ِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جب سچے مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہو جائےاور منافقین کا معاملہ الم نشرح ہو جائے تو ” مومنین تعجب سے کہیں گے کہ کیا یہ منافق لوگ وہی نہیں ہیں کہ دعویٰ کرتے تھے اور قَسمیں کھاتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اب ان کا یہ انجام کیوں ہوا ہے “( وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَهَؤُلاَءِ الَّذِینَ اٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَکُمْ ) ۔(۲)
اور اسی نفاق کی وجہ سے ان کے تمام اعمال باطل اور نابود ہو گئے کیونکہ ان کا سر چشمہ پاک اور خالص نیک نہ تھی اور ” اسی بناپر وہ اس جہان میں بھی اور دوسرے جہ ان بھی خسارے میں ہیں “( حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ فَاٴَصْبَحُوا خَاسِرِینَ ) ۔
در اصل آخری جملہ سوالِ مقدرکے جواب کی طرح ہے گویا کوئی پوچھتا ہے کہ ان کا انجام کار کیا ہو گیا تو ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ان کے اعمال بالکل بر باد ہو گئے ہیں اور انھیں خسارا اٹھانا پڑا ہے ۔ یعنی انھوں نے نیک اعمال ِ خلوص سے بھی انجام دئے ہوں لیکن آخر کار انھوں نے چونکہ نفاق اور شرک اختیار کیا ہے لہٰذا ان کے اعمال بر باد ہو گئے ہیں جیساکہ تفسیر نمونہ جلد دوم ( ص ۶۶ اردو ترجمہ ) سورہ بقرہ آیہ ۲۱۷ کے ذیل میں بیان کیا جاچکا ہے ۔
غیروں پہ تکیہ
شانَ نزول میں تو عبادہ بن صامت اور عبد اللہ بن ابی کی گفتگو آئی ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ آیات صرف دوتاریخی شخصیتوں کے مابین ہونے والی گفتگو کے حوالے ہی سے نہیں دیکھی جاسکتیں بلکہ وہ دونوں دو معاشرتی مکاتب ِ فکر کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ ایک مکتب کہتا ہے کہ دشمن سے الگ رہنا چاہئیے اور اپنی مہار اس کے ہاتھ میں نہیں دیا چاہئیے اور اس کی امداد پر اطمنان نہیں کرنا چاہئیے ۔ جبکہ دوسرا مکتبِ فکر کہتا ہے کہ اس ہنگامہ خیز دنیا میں ہر شخص اور ہر قوم کو ایک سہارے کی ضرورت ہے ۔ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے کہ غیروں میں سے کسی کو سہارا بنا لیا جائے اور غیروں کی دوستی بھی قدر وقیمت کی حامل ہے اور ایک دن وہ ثمر بخش ثابت ہوگی ۔
قرآن دوسرے مکتب کی شدت سے سر کوبی کرتا ہے او رمسلمانوں کو اس طرز فکر سے تاکید اً ڈراتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مسلمان یہ عظیم خدائی حکم بھلا چکے ہیں اور غیروں میں سے بعض پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت سی بد بختیوں کا سر چشمہ یہی چیز ہے ۔
اُندلس اس کی زندہ نشانی ہے ۔ کل کے اندلس اور آج کے اسپانیہ میں مسلمانوں نے کیسے اپنی قوت و طاقت کے بل پر ایک درخشان تمدن کی بنیاد رکھی اور پھر غیروں پر بھروسہ کرکے اس سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس کی دوسری دلیل عظیم عثمانی بادشاہت ہے جو تھوڑی ہی مدت میں گرمیوں میں پگھل جانے والی برف کی طرف بہہ گئی ۔
دور حاضر میں اس مکتب سے منحرف ہونے سے مسلمانوں نے جو کاری ضربیں کھائی ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں لیکن تعجب ہے کہ ہم اب بھی کیوں بیدار نہیں ہوتے۔
غیر بہر حال غیرہی ہے ۔ مشترک مفادات کی خاطر اگر کوئی غیر چند قدم ہمارے ساتھ چلے بھی تو آخر کار حساس لمحاتمیں نہ صرف یہ کہ وہ ساتھ چھوڑدے گا بلکہ ہم پر کاری جربیں بھی لگائے گا ۔ چاہئیے یہ کہ آج کا مسلمان اس قرآنی صدا پر سب سے زیادہ کان دھرے اور اپنی طاقت کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرے۔ پیغمبر اسلام اس بات کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جنگ ِ احد کے موقع پر جب بہت سے یہودی مشرکین کے خلاف جنگ کے لئے آپ سے آملے تو آپ نے دوران ِ راہ ہی انھیں واپس کردیا اور ان کی مدد قبول نہ فرمائی ۔ حالانکہ یہ تعداد جنگ احد میں ایک موثر کر دار ادا کرسکتی تھی آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ جنگ کے حساس لمحات میں دشمن سے مل جاتے اور بچے کھچے لشکر اسلام کو بھی ختم کردیتے۔
____________________
۱۔ ”دائرة“ کا مادہ ” دور“ ہے اس کا معنی ہے ایسی چیز جو گردش میں ہو اور چونکہ تاریخ میں حکومت و سلطنت ہمیشہ گردش میں رہی ہے ، اس لئے اسے دائرة کہتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف حوادث زندگی میں جو افراد کے گرد جمع رہتے ہیں انھیں ”دائرة “ کہا جاتا ہے ۔
۲ ۔مندرجہ بالا آیت میں ” ھٰؤلاء“ مبتدا ہے اور ” الذین اقسمو ا باللہ “ ا سکی خبر ہے اور ” جھد ایمانھم“ مفعول مطلق ہے ۔