3%

اعتراضات کا جواب

بعض متعصب اہل سنت نے اس آیت کے حضرت علی (علیه السلام) کی شان میں نازل ہو نے سے انکار کیا ہے اور اسی طرح ” ولایت“ کی تفسیر سر پرستی، تصرف اور امامت کرنے پر بھی اعتراض کیا ہے ۔ ان میں سے اہم اعتراضات پر ہم یہاں تحقیق کرتے ہیں ۔

۱۔ ” الذین “ جمع کا صیغہ ہے :

ایک اعتراض یہ ہے کہ آیت میں ” الذین “ جمع کا صیغہ ہے لہٰذا اس آیت کو ایک شخص پر کیسے منطبق کیا جاسکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کہتی ہے کہ تمہارے ” ولی “ و ہ اشخاص ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ عربی ادبیات میں ایسا بارہا دکھائی دیتا ہے کہ مفرد کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔

مثالیں ملاحظہ ہوں :

آیہ مباہلہ میں لفظ” نسائنا “ جمع کی صورت میں ہے جب کہ اس سے مراد جناب فاطمہ زہرا(علیه السلام) ہیں جیسا کہ اس ضمن میں مروی متعدد شانِ نزول شان ِ گواہی دیتی ہیں ۔

آیہ مباہلہ ہی میں لفظ ” انفسنا“ جمع کی صورت میں ہے جبکہ مباہلہ کےلئے جانے والوں میں رسول اللہ کے علاوہ صرف حضرت علی (علیه السلام) تھے ۔

جنگ احد کے ایک واقعہ کے سلسلے میں سورہ آل ِ عمران آیہ ۱۷۲ میں ہے :

( الذین قال لهم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایماناً )

تیسری جلد میں اس آیہ کی تفسیر میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ بعض مفسرین نے اس کی شانِ نزول کی نقل کی ہے ، جس میں ” الذین “ سے ایک ہی شخص نعیم بن مسعود مراد لیا گیا ہے ۔

سورہ مائدہ کی آیہ ۵۲ میں ہے”( یقولون نخشی ان تصیبنا دائرة )

اس میں بھی جمع کے صیغے ہیں ۔ حالانکہ یہ آیت عبد اللہ ابن ابی کے بارے میں وارد ہوئی ہے ۔ جس کی تفسرگزر چکی ہے ۔

علاوہ ازیں : ممتنحہ ۔ آیہ منافقون آیہ ۸ بقرہ آیہ ۲۱۵ ، ۲۷۴ ، وغیرہ

میں ایسی تعبیرات موجودہیں جو جمع کی شکل میں ہیں ، لیکن ان کی شانِ نزول کے مطابق ان سے ایک ہی شخص مراد تھا ۔

ایسی تعبیرات یا تو اس شخص کی حیثیت اور مقام کی اہمیت اور اس کے کام کے نقش ِ موثر واضح کرنے کے لئے ہوتی ہیں یا اس لئے کہ حکم کو کلی صورت میں پیش کیا جائے اگر چہ اس کامصداق ایک ہی فرد ہو۔

خدا کہ جو اکیلا ہے اس کے لئے قرآن مجید میں بہت سی آیات میں جمع کی ضمیر تعظیم کے طور پر ہی استعمال ہوئی ہے ۔

البتہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہ بغیر قرینہ کے خلاف ظاہر مفرد کے لئے جمع کا استعمال جائز نہیں ہے لیکن آیت کی شان ِ نزول میں وارد ہونے والی تمام روایات ہمارے پاس واضح قرینہ کے طور پر موجود ہیں جب کہ دوسرے مواقع پر اس سے کم قرینہ پر بھی قناعت کرلی جاتی ہے ۔

۲۔ حالت رکوع میں زکوٰة ؟

فخر الدین رازی اور بعض دوسرے متعصبین نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت علی(علیه السلام) تو نماز میں مخصوص توجہ رکھتے تھے اور پر وردگار سے مناجات میں مستغرق رہتے تھے یہاں تک کہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ حالتِ نماز میں تیر کا پھل آپ کے پاوں سے نکالا گیا اور آپ متوجہ نہیں ہوئے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ نے سائل کی آواز سن لی اور اس کی طرف متوجہ ہو گئے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے اس نکتہ سے غافل ہیں کہ سائل کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا اپنی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے کہ بلکہ عین خدا کی طرف توجہ ہے ۔ حضرت علی (علیه السلام) حالت نمازمیں اپنے آپ سے غافل تھے نہ کہ خدا سے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ مخلوقِ خدا سے غفلت اور بیگانگی در اصل خدا سے غفلت اور بے گانگی ہے ۔ زیادہ واضح لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالت نماز میں زکوٰة دینا عبادت کے اندر عبادت ہے نہ کہ عبادت کے دورون ایک عمل مباح کی انجام دہی ۔ ایک اور عبارت میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ بات جو روح ِ عبادت سے مناسبت نہیں رکھتی یہ ہے کہ کو ئی شخص عبادت کے دوران مادی اور شخصی زندگی سے مربوط ہو جائے ۔ لیکن ان امور کی طرف متوجہ ہو نا جو رضائے الہٰی کا ذریعہ ہیں روح ِ عبادت کے لئے ساز گار ہیں عبادت کے لئے بلند مرتبے کا باعث ہیں ۔

اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ خدا کی طرف توجہ اور استغراق کا یہ مطلب نہیں کہ انسان بے اختیار ہو کر اپنا احساس کھو بیٹھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقصد و ارادہ سے اپنی توہ ایسی ہر چیز سے پھیر لیتا ہے جو راہ خدا میں اور خدا کے لئے نہیں ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ فخرالدین رازی کا تعصب یہاں تک آپہنچا ہے کہ اس نے سائل کو حضرت علی (علیه السلام) کے اشارہ کرنے کو کہ وہ خود آکر انگشتری اتار لے ” فعل کثیر“ قرار دیا ہے جو ان کی نظر میں نماز میں درست نہیں ۔ حالانکہ وہ نماز میں ایسے کام انجام دینا جائز سمجھتے ہیں جو اشارہ سے کئی درجہ زیادہ ہیں اور اس کے باوجود وہ نماز کے لئے نقصان وہ نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ حشرات الارض مثلاً سانپ یابچھوکو مارنا ، بچے کواٹھا نا اور بٹھانا یہاں تک کہ شیر خوار بچے کو دودھ پلانے کو تووہ نماز میں فعل کثیر نہیں سمجھتے پھر ایک اشارہ فعل کثیر کس طرح ہو گیا لیکن جب کسی کی دانش مندی طوفانِ تعصب میں پھنس جاتی ہے تو پھر ایسے تعصبات اس کے لئے باعث ِ تعجب نہیں رہتے۔

۳۔ لفظ ”ولی “ کا مفہوم :

آیت پر ایک اور اعتراض لفظ ” ولی “ کے معنی کے بارے میں کیا گیا ہے اور اس سے مراد” دوست اور مدد کرنے والا“ لیا گیا ہے نہ کہ ” متصرف ، سرپرست اور صاحب اختیار“۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ ہم آیت کی تفسیر کے بارے میں اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ لفظ ”ولی “ سے یہاں دوست اور مدد کرنے والا مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ صفت تو تمام مومنین کے لئے ثابت ہے نہ کہ ان مخصوص مومنین کے لئے جو آیت کے مطابق نماز قائم کریں اور حالت ِ رکوع میں زکوٰة دیں ۔ دوسرے لفظوں میں دوستی اور مدد کا ایک عام حکم ہے ، جب کہ آیت ایک خصوصی حکم بیان کررہی ہے اسی لئے تو ایمان کا ذکر کرنے کے بعد خا ص صفات بیان کی جارہی ہیں کہ جو ایک شخص کے ساتھ مخصوص ہیں ۔

۴۔ حضرت علی (علیه السلام) پرواجب زکوٰة :

کہاجاتا ہے کہ حضرت علی (علیه السلام) پر کو ن سی زکوٰة واجب تھی جب کہ وہ مالِ دنیا میں سے اپنے لئے کچھ فراہم ہی نہ کرتے تھے اور اگر اس سے مراد مستحب صدقہ ہے تو اسے زکوٰة نہیں کہا جاسکتا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ :

اول تو تواریخ گواہی دیتی ہیں کہ حضرت علی (علیه السلام) نے اپنے ہاتھ سے بہت سامال کمایا تھا اور اسے راہ خدا میں صرف کردیا تھا ۔ یہاں تک کہ مرقوم ہے کہ آپ نے ایک ہزار غلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے آزاد کرایا ۔ علاوہ ازیں آپ کو مختلف جنگو ں کے مال غنیمت میں سے بھی بہت کچھ ملا تھا ۔ لہٰذا کچھ ایسا مال یا کوئی چھوٹا سا کھجوروں کا باغ جس کی زکوٰة ادا کرنا آپ پر واجب ہو اس ہو نا کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے ۔ نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زکوٰة فوراً ادا کرنے کے وجوب کی فوریت ” عرفی فوریت “ ہے جو نماز پڑھتے ہوئے ادا کرنے کے منافی نہیں ہے ۔

دوم یہ کہ مستحب زکوٰة کو قرآن مجید میں بہت مرتبہ زکوٰة کہا گیا ہے بہت سی مکی سورتوں میں یہ لفظ زکوٰة آیا ہے جس سے مراد مستحب زکوٰة ہی ہے کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ واجب زکوٰة کا حکم پیغمبر اسلام کی ہجرت ِ مدینہ کے بعد نازل ہوا( نمل ۔ ۳ ، روم۔ ۲۹ ، لقمان۔ ۴ ، فصلت۔ ۶ وغیرہ) ۔

۵۔ آیت میں ”ولایت بالفعل “کا ذکر ہے :

اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر ہم حضرت علی (علیه السلام) کی خلافت ِ بلا فصل پر ایمان بھی آئیں تب بھی یہ بات قبول کرنا پڑے گی کہ اس تعلق زمانہ پیغمبر کے بعد سے ہے لہٰذا حضرت علی (علیه السلام) نزول آیت کے وقت ولی نہ تھے ۔ دوسرے لفظوں میں اس وقت ان کے لئے ” ولایت بالقوة “ تھی ” ولایت بالفعل“ نہ تھی جب کہ آیت ظاہراً ” ولایت بالفعل“کا ذکر کررہی ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ روز مرہ کی گفتگو میں ایسی والی تعبیرات بہت دکھائی دیتی ہیں ۔ لوگوں کے لئے ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں جو وہ ” بالقوة“ ہیں مثلاً انسان اپنی زندگی میں وصیت کرتا ہے او رکسی شخص کو اپنے بچوں کے لئے وصی اور قیم معین کرتا ہے اور اسی وقت سے ” وصی “ اور قیم “ کے الفاظ اس شخص کے لئے بولے جانے لگتے ہیں جب کہ وصیت کرنے والا ابھی زندہ ہوتا ہے ۔

شیعہ سنی طرق سے پیغمبر اکرم سے جو روایات حضرت علی (علیه السلام) کے بارے میں مروی ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے انہیں ” میرے وصی“ اور میرے خلیفہ “ کہہ کر خطاب کیا جب کہ ایسا زمانہ پیغمبر میں نہ تھا ۔

قرآن مجید میں بھی ایسی تعبیرات دکھائی دیتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت زکریا (علیه السلام) کے بارے میں ہے کہ انھوں نے خدا سے یہ در خواست کی

( هب لی من لدنک ولیاً یرثنی و یرث من اٰل یعقوب ) “ ( مریم ۔ ۵)

حالانکہ مسلم ہے کہ ”ولی “ سے یہاں مراد ” سرپرست “ ہے جو ان کی وفات کے بعد ہو گا ۔

بہت سے لوگ اپنے جانشین اپنی زندگی میں معین کرتے ہیں اور اسی وقت سے اسے جانشین کہنے لگتے ہیں حالانکہ وہ ” بالقوة “ ہی ہوتے ہیں ” بالفعل “ نہیں ۔

۶۔ حضرت علی (علیه السلام) نے اس آیت سے خود استدلال کیوں نہیں کیا؟

کہا جاتا ہے کہ حضرت علی (علیه السلام) نے اس واضح دلیل سے خود استدلال کیوں نہیں کیا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جیساکہ آیت کے شان، نزول کے بارے میں وارد شدہ روایات کی بحث کے ضمن میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہ حدیث متعدد کتب میں خود حضرت علی (علیه السلام)سے بھی نقل ہوئی ہے جیسا کہ مسند ابن مردویہ ، مسند ابی شیخ اور کنز العمال میں سے یہ بات در حقیقت اس آیت سے آپ کااستدلا ل ہی ہے ۔

کتاب ِ نفیس ” الغدیر“ میں کتاب سلیم بن قیس ہلالی سے ایک مفصل حدیث نقل کی گئی ہے جس کے مطابق حضرت علی (علیه السلام) نے میدان صفین میں کچھ لوگوں کی موجودگی میں اپنی حقانیت پر دلائل پیش کئے ان میں سے ایک استدلال اسی آیت سے تھا ۔(۱)

غایة المرام مین ابو ذر سے منقول ہے :

حضرت علی (علیه السلام) نے شوریٰ کے دن بی اس آیت سے استدلال کیا تھا ۔(۲)

۷۔ قبل اور بعد کی آیات سے آیہ ولایت کا ربط :

یہ بھی کہاجاتا ہے کہ قبل اور بعد کی آیات سے ولایت و امامت والی تفسیر مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ ان میں ولایت دوستی کے معنی میں آئی ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ قرآنی آیات چونکہ تدریجا ً اور مختلف واقعات میں نازل ہوئی ہیں لہٰذا ان کا تعلق ان حوادث اور واقعات سے ہے جن کے سلسلے میں وہ نازل ہو ئی ہیں نہ یہ کہ ایک سورت کی آیات یا یکے بعد دیگرے آنے والی آیات ہمیشہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں یا مفہوم و معنی کے اعتبار سے ہمیشہ نزدیکی تعلق رکھتی ہے ۔ لہٰذا اکثر ایسا ہو تا ہے کہ دو آیات ایک دوسرے کے بعد نازل ہوئی ہیں ۔لیکن ان کا تعلق دو مختلف واقعات سے ہے ۔ مختلف واقعات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دونوں معافی و مفہوم کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل جد اہیں ۔

جیسا کہ شان ِ نزول شاہد ہے کہ آیت”( انما ولیکم الله ) “ حضرت علی علیہ السلام کے حالت ِ رکوع میں زکوٰة دینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس سے قبل او ربعد کی آیات جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں او رپڑھیں گے دوسرے واقعات کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں لہٰذا ان کے ایک دوسرے سے تعلق کی بات کا زیادہ سہارا نہیں لیا جاسکتا ۔

علاوہ ازیں اتفاق کی بات ہے کہ زیر بحث آیت گذشتہ اور پیوستہ آیات سے مناسبت بھی رکھتی ہے کیونکہ دوسری آیات میں ولایت بمعنی دوستی او رمددکے گفتگو ہے جبکہ زیر بحث آیت میں ولایت رہبری اور سر پرستی کے مفہوم میں ہے اور اس میں شک نہیں کہ ولی ، سر پرست او رمتصرف اپنے پیروکاروں کا دوست اور یاور و مدد گار بھی ہوتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں دوست اور مدد گار ہونا ولایت مطلقہ کے کوائف اور اوصاف میں سے ہے ۔

۸۔ ایسی قیمتی انگوٹھی کہاں سے آئی تھی ؟ :

کہا جاتا ہے کہ ایسی گراں قیمت انگوٹھی جو تاریخ نے بیان کی ہے حضرت علی (علیه السلام) سے لائے تھے ؟ علاوہ ازیں ایسی غیر معمولی قیمت کی انگوٹھی پہنا اسراف بھی ہے ، تو کیا یہ بات اس کی دلیل نہیں کہ مذکورہ تفسیر صحیح نہیں ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس نگوٹھی کی قیمت کے بارے میں جو مبالغے کئے گئے ہیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں اور اس کے بہت قیمتی ہونے کی ہمارے پاس کوئی قابل قبول دلیل ہیں ہے۔ یہ جو ایک ضعیف روایت(۳)

میں اس کی قیمت خراج شام کے برابر بیان کی گئی ہے ۔ حقیقت سے زیادہ ایک افسانے سے مشابہت رکھتی ہے اور شایداس اہم واقعے کی اہمیت ختم کرنے کے لئے اسے گھڑ اگیا ہے ۔ صحیح اور معتبر روایات جو آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ۔ ان میں ایسے کسی افسانے کا کوئی ذکر نہیں لہٰذا ایسی باتوں سے ایک تاریخی واقعے اور حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ۔

____________________

۱-الغدیر جلد ۱ ص ۱۹۶۔

۲۔ منقول از منہاج البراعة جلد ۲ ص ۳۶۳۔

۳۔ یہ ضعیف روایت بطور مرسل تفسیر برہان ج۱ ص ۴۸۵پر مذکورہے ۔