آیت ۹۱
۹۱۔( سَتَجِدُونَ آخَرینَ یُریدُونَ اٴَنْ یَاٴْمَنُوکُمْ وَ یَاٴْمَنُوا قَوْمَهُمْ کُلَّما رُدُّوا إِلَی الْفِتْنَةِ اٴُرْکِسُوا فیها فَإِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوکُمْ وَ یُلْقُوا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوا اٴَیْدِیَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَ اٴُولئِکُمْ جَعَلْنا لَکُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطاناً مُبینا ) ۔
ترجمہ
۹۱۔ بہت جلد تم ایسے لوگوں سے ملوگے جو چاہتے ہیں کہ تمہاری طرف سے بھی امان میں ہوں اور اپنی قوم کی طرف سے بھی مامون ہوں (یہ مشرک ہیں لہٰذا تمہارے سامنے ایمان کا دعوی ٰ کرتے ہیں ) لیکن جس وقت وہ فتنہ ( اور بت پرستی) کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو وہ سر کے بل اس میں ڈوب جاتے ہیں اگر وہ تم سے الجھنے سے کنارہ کش نہ ہوئے اور انھوں نے صلح کی پیش کش نہ کی اور تم سے دستبردار نہ ہوئے تو انھیں جہاں کہیں پاو قید کرلو( یا) انھیں قتل کردو اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر ہم نے تمہارا واضح تسلط قرار دیا ہے ۔
شانِ نزول
در ج بالا آیت کے لئے مختلف شانِ نزول منقول ہو ئے ہیں زیادہ مشہور ان میں سے یہ ہے کہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دھو کے بازی اور چالبازی کے طور پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ۔ لیکن جب بھی وہ قریش اور ان کے بتوں کے سامنے جاتے تو ان کے بتوں کی عبادت اور پرستش شروع کردیتے ۔ اس طرح وہ چاہتے تھے کہ وہ اسلام اور قریش دونوں سے محفوظ رہیں ، دونوں طرف سے فائدہ اٹھائیں اور کسی سے انھیں نقصان نہ پہنچے اصطلاح کے مطابق دونوں گروہوں سے دو طرفہ تعلقات استوار رکھیں ۔ اس پر زیر نظر آیت نازل ہوئی جس میں اس گروہ کے خلاف سخت کار روائی کا حکم دیا گیا۔
طرفین سے ساز باز رکھنے والوں کی سزا
مشرکین کے درمیان آزادی سے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انھوں نے دھوکے اور خیانت کی راہ اختیار کر رکھی ہے وہ دونوں گروہوں سے ہم قدم اور ہم فکر ہونے کا اظہار کرتے ہیں( سَتَجِدُونَ آخَرینَ یُریدُونَ اٴَنْ یَاٴْمَنُوکُمْ وَ یَاٴْمَنُوا قَوْمَهُمْ )
اسی وجہ سے جب فتنہ سازی اور بت پرستی کا موقع ان کے ہاتھ آتا ہے تو ان کے سارے پروگرام الٹے ہوجاتے ہیں اور سر کے بل بت پرستی میں ڈوب جاتے ہیں( کُلَّما رُدُّوا إِلَی الْفِتْنَةِ اٴُرْکِسُوا فیها ) ۔
یہ پہلے گروہ کے بالکل بر عکس ہیں کیونکہ ان کی کوشش یہ تھی کہ یہ مسلمانوں سے بر سر پیکار نہ ہوں جب کہ ان کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں سے الجھتے رہیں وہ صلح کی پیش کش کرتے تھے جبکہ یہ مسلمانوں سے بر سر پیکار تھے وہ مسلمانوں کو تکلیف نہیں پہنچاتے تھے لیکن یہ ظلم و جور سے اجتناب نہیں کرتے تھے ۔ یہ تینوں فرق جن کی طرف( فَإِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوکُمْ وَ یُلْقُوا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوا اٴَیْدِیَهُمْ ) ۔
میں اشارہ ہوا ہے اس امر کا سبب ہیں کہ ان کے بارے میں حکم پچھلے گروہ سے مکمل طور پر مختلف حکم ہو ۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انھیں جہاں کہیں پائیں اسیر کرلیں اور مقابلہ کرنے کی صورت میں قتل کردیں( فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ )
لہٰذا ان کے لئے کافی اتمام حجت کیا گیا ہے وہاں آیت کے آخر میں یہ بھی فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں کہ ہم نے واضح طور پر ان پر تمہارا تسلط قائم کیا ہے ۔
( وَ اٴُولئِکُمْ جَعَلْنا لَکُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطاناً مُبینا ) ۔
زیر بحث آیت میں جس تسلط کی طرف اشارہ ہے ہوسکتا ہے یہ تسلط منطقی لحاظ سے ہو ۔ کیونکہ مسلمانوں کی منطق مشرکین کی منطق پر غالب تھی یا یہ بھی ہوسکتا ہے ظاہری اور خارجی لحاظ سے ہو کیونکہ جس وقت یہ آیات نازل ہو ئیں اس وقت مسلمان بہت ھد تک طاقت ور ہو چکے تھے ۔
درج بالا آیت میں ”ثقفتموهم “ کی تعبیر ممکن ہے ایک دقیق نکتے کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ یہ لفظ ثقافت کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کا مشکل سے اور مہارت سے ہا تھ آنا اور ”وجدتموهم “ وجدان کے مادہ سے صرف ہاتھ آنے کے معنی میں ہے ان دونوں کا مفہوم مختلف ہے گویا منافقین کا یہ گروہ ( جودوغلہ ہے ) دونوں سے تعلقات رکھتا ہے یہ منافقین کا خطر ناک ترین گروہ ہے ممکن نہیں کہ انھیں آسانی سے پہچان لیا جائے اور وہ کسی جال میں پھنس جائے لہٰذا فرماتا ہے : مہارت اور مشکل سے ان پر قبضہ کر لو تو انھیں خد اکا حکم سنا و یہ اس طرف اشارہ ہے کہ انھیں گرفتار کرنا کٹھن اور مشکل کام ہے ۔