سوره انعام
فضیلت تلاوت سوره انعام
شرک کی مختلف اقسام اور بت پرستی کے خلاف جہاد
کہا جاتا ہے کہ یہ انہترواں ( ۶۹) سورہ ہے جو مکہ میں پیغمبر پر نازل ہوا، البتہ اس کی چند آیات کے بارے میں اختلاف ہے ، بعض کا نظریہ ہے کہ یہ چند آیات مدینہ میں نازل ہوئی ہیں ، لیکن ان روایات سے جو اہلبیت (علیه السلام) کے طریقہ سے ہم تک پہنچی ہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی تمام آیات ایک جگہ نازل ہوئی ہیں ، اس بنا پر وہ سب کی سب -”مکی“ ہوں گی ۔
اس سورہ کا بنیادی ہدف اور مقصد دوسری مکی سورتوں کی طرح ہی تین اصولوں ”توحید“ ”نبوت“ اور ”قیامت“ کی طرف دعوت دینا ہے،لیکن سب سے پڑھ کر اس میں مسئلہ توحید اور شرک وبت پرستی کے خلاف مبارزہ کیا گیا ہے اور وہ اس طور پر کہ اس سورہ کی آیات کے اہم حصہ میں روئے سخن مشرکین اور بت پرستوں کی طرف ہی ہے اور اسی مناسبت سے بعض اوقات بحث کا سلسلہ مشرکین کے اعمال وکردار اور بد عت تک پہنچ جاتا ہے ۔
بہر حال اس سورہ کی آیات میں تدبر وتفکر جو انتہائی جاندار اور واضح اور روشن دلائل پر مشتمل ہے، انسان کے اندر روئے توحید وخدا پرستی کو زندہ کرتا ہے اور شرک کی بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیتا ہے، شاید اسی معنوی وابستگی اور مسئلہ توحید کی باقی سب مسائل اولویت کی بنیاد پر ہی اس سورہ کی تمام آیات یکجائی طور پر ایک ہی دفعہ نازل ہوئی ہے ۔
اور وہ روایات جو اس سورہ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس امر کے سبب سے ہی ہیں ہم بارہا پڑھتے ہیں کہ سورہ انعام کے نزول کے وقت ستر ہزار فرشتہ اسے لے کر نازل ہوئے تھے اور جو شخص اس سورہ پڑھے (اور اس کے سایہ میں اس کی روح سرچشمہ توحید سے سیراب ہو) تو وہ تمام فرشتوں کے لئے طلب مغفرت کرتا ہے، ہو سکتاہے کہ اس سورہ کی آیات میں غور فکر کرنا مسلمانوں میں سے روح نفاق وپراکندگی کو نکال باہر کرے اور کانوں کو سننے والا ،آنکھوں کو دیکھنے والااور دلوں کو دانا بنا دے ۔
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ اس سورہ سے صرف اس کے الفاظ کے پڑھنے پر قناعت کرتے ہیں اور اپنی ذات اور خاص مشکلات کے حل کے لئے طویل و عریض تقریبات اور نشستیں منعقد کرتے ہیں جنھیں ”ختم انعام “ کے نام سے یاد کرتے ہیں ، مثال کے طور پر اگر ان تقریبات مین سورہ کے مضامین میں غور فکر کیا جائے تو نہ صرف مسلمانوں کی شخصی وذاتی مشکلات حل ہوں گی بلکہ ان کی عمومی مشکلات بھی حل ہوجائے گی ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کو ایک ایسا سلسلہ اور اد کے طور سے دیکھتے ہیں کہ جس میں ایسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں جو راز ہی راز ہے اور کسی کو معلوم نہیں ہے اور اس کے الفاظ کو پڑھنے کے علاوہ کچھ بھی غور نہیں کرتے ، حالانکہ قرآن سارے کا سارا سبق ہے اور مدرسہ ، ایک پرواگرام ہے اور بیداری ،ایک رسالت ہے اور علم وآگاہی۔
آیات ۱،۲
( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )
۱( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُونَ ) -
۲( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ طِینٍ ثُمَّ قَضَی اٴَجَلًا وَاٴَجَلٌ مُسَمًّی عِنْدَهُ ثُمَّ اٴَنْتُمْ تَمْتَرُونَ ) -
ترجمہ:
شروع اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے
۱ ۔ حمد وستائش اس خدا کے لیے ہے جس نے آسمانو--ں اور زمین کو پیدا کیااور تاریکیوں اور نور کو ایجاد کیا لیکن کافر خدا کے لیے شریک و شبیہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اس کی توحید اور یکتائی کی دلیلیں تخلیق کائنات میں ظاہر وعیاں ہیں ۔
۲ ۔ وہ وہی ذات ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اس نے ایک مدت مقرر کی(تاکہ انسان درجہ کمال کو پہنچ جائے) اورحتمی اجل اس کے پاس ہے (اور وہ اس سے آگاہ ہے)اس کے باوجود تم(مشرک لوگ اس کی یکتائی یا اس کی قدرت میں )شک وشبہ رکھتے ہو اور اس کا انکار کرتے ہو ۔
وہ خدا جو نور وظلمت دونوں کا مبدا ہے،
اس سورہ میں خدا وندتعالیٰ کی حمدوستائش کے ساتھ آغاز ہوا ہے ۔
پہلے عالم کبیر(آسمان وزمین)اور ان کے نظاموں کی پیدائش کے طرےق سے اور اس کے بعد ”عالم منعیر یعنی انسان“کی آفرینش کے راستہ سے لوگوں کو اصل توحید کی طرف متوجہ کیا گیا،پہلے کہتا ہے:حمد ستائش اس خدا کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض )
وہ خدا جو نور وظلمت دونوں کا مبدا ہے، دو خداؤں کی پرستش کا عقیدہ رکھنے والوں نظرےے کے بر خلاف وہی تنہا تمام چیزوں کے پیدا کرنے والا ہے ۔
( وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ) لیکن مشرکین وکفار بجائے اس کے کہ اس نظام واحد سے توحید کا سبق حاصل کریں اپنے پروردگار کے لئے شریک وشبیہ قرار دیتے ہیں( ثُمَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُونَ ) (۱)
یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ مشرکین کے عقیدہ کو لفظ”ثمّ“ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے و کہ لغت عرب میں (ترتیب بافاصلہ کے لئے )بولا جاتا ہے اور اس سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہابتدا میں تمام نوع بشر میں توحید ایک اصل فطری اور عقیدہ عمومی کی حیثیت سے موجود تھی اور شرک بعد میں اس اصل فطری سے ایک انحراف کی صورت میں پیدا ہوا ہے ۔
اس بارے میں کہ آسمان و زمین کی پیدائش کے سلسلہ میں لفظ” خلق“ اور نور وظلمت کے بارے میں لفظ ”جعل“ کیوں استعمال کیا گیا ہے ، مفسرین نے طرح طرح کے خیالات ظاہر کئے ہیں ، لیکن وہ بات جو ذہن سے زیادہ قریب معلوم تر ہوتی ہے یہ ہے کہ خلقت کسی چیز کے اصل وجود کے بارے میں اور جعل ان خواص وآثار کے بارے میں و کیفیات کے بارے میں ہوتا ہے جو اس کے بعد وجود پیدا کرتے ہیں ۔ کیوں کہ نور وظلمت تبعی پہلو رکھتے ہیں اس لئے انھیں جعل سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
یہ آیت حقیقت میں تین قسم کے انحراف کرنے والے گروہوں کو جواب دے رہی ہے، پہلا گروہ مادہ پرستوں کا ہے جو دنیا کو ازلی”قدیمی“ سمجھتے تھے اور خلق وآفرینش کے منکر تھے ،دوسرا گروہ دو خداؤں کی پرستش کرنے والوں کا ہے جو نور و ظلمت کو دو مستقل مبدا قرار دیتے تھے، تیسرا گرویہ مشرکین عرب کا ہے جو خدا کے لئے شریک وشبیہ کے قائل تھے یہ ان کا رد بھی ہے ۔
۱ ۔ یعدلون ،مادہ عدل (بروزن حفظ) سے ہے جس کے معنی مساوی اور ہم وزن کے ہیں اور یہاں شریک وشبیہ کا قائل ہونے کے معنی میں ہے ۔۔
کیا تاریکی بھی مخلوقات میں سے ہے
اوپر والی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح نور خدا کی مخلوق ہے اسی طرح ظلمت بھی اس کی مخلوق ہے، حالانکہ فلسفہ اور علم طبیعات کے علماء میں یہ مشہور ہے کہ ”ظلمت“ عدم نور کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ معدوم کو مخلوق کا نام نہیں دیا جا سکتا اس بنا پر زیر بحث آیت میں ظلمت کو کس طرح خدا کی مخلوق شمار کیا گیا ہے ۔
اس سوال کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ظلمت ہمیشہ ظلمت مطلقہ کے معنی میں نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ تر فراوان وقوی نور کے مقابل میں بہت کم اور ضعیف نور کے لئے بھی ظلمت کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلا ہم سب کہتے ہیں ”تاریکی رات “ حالانکہ کہ یہ بات مسلم ہے کہ رات میں ظلمت مطلقہ نہیں ہوتی، بلکہ رات کی تاریکی ہمیشہ کم رنگ ستاروں کے نور کی آمیزش رکھتی ہے یا دوسرے منابع نور سے ملی ہوئی ہوتی ہے اس بنا پر آیت کا معنی و مفہوم یہ ہوگا کہ خدا نے تمہارے لئے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی قراردی ہے کہ جن میں سے ایک کا نور بہت قوی ہے اور دوسرا کا نور بہت کمزور ہے اور یہ بات واضح وبدیھی ہے کہ ا س قسم کی ظلمت مخلوق خدا میں سے ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ ظلمت مطلقہ ایک ایسا امر ہے جسے عدم کہا جا تا ہے لیکن کوئی بھی امر معدوم جب مخصوص حالات میں واقع ہوتو حتما اور یقینا اس عدم کا سر چشمہ ایک ایک وجودی بھی ہوتا ہے، یعنی وہ چیز جو ظلمت مطلقہ کو مخصوص حالت میں معین اہداف ومقاصد کے لئے وجود میں لاتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وسائل وجودی سے استفادہ کرے، مثلا ہم چاہتے ہیں کہ ایک مخصوص وقت کے لئے کمرے کو ایک عکس ظاہر کرنے کے لئے تاریک کریں ، تو اس کے لئے ہم مجبور ہیں کہ کسی تدبیر سے نور کو روکیں تاکہ اس معین وقت میں تاریکی پیدا ہوجائے تو ایسی ظلمت مخلوق ہے(مخلوق بالتبع)اور اصطلاحی طور پر اگر چہ عدم متعلق مخلوق نہیں لیکن عدم خاص وجود ہی ایک حصہ ہے اور وہ مخلوق ہے ۔
نور رمز وحدت ہے اور ظلمت رمز پراکندگی
ایک دوسرا نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئے یہ ہے کہ یہ آیات قرآن میں نور صیغہ مفرد کے ساتھ ہے اور ظلمت جمع کی صورت میں (ظلمات ) ۔
ممکن ہے کہ یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ ظلمت (خواہ حسی ہو یا معنوی) ہمیشہ پراکندگیوں ، جدائیوں اور دوریوں کا سرچشمہ ہوتی ہے جب کہ نور رمز وحدت واجتماع ہے ۔
ہم نے اکثر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ہم گرمی کی کسی رات صحن کے درمیان یا بیابان کے ابدر ایک چراغ روشن کرتے ہیں تو ہر قسم کے جانور تھوڑی سی دیر میں اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور باقی زندگی مختلف صورتوں میں دکھائی دیتی ہے، لیکن جب اس ”چراغ“ کو بجھادیتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کسی طرف چل دیتا ہے اور سب پراکندہ اورمنتشر ہوجاتے ہیں ، اجتماعی اور معنوی مسائل میں بھی یہی صورت ہے، علم ، قرآن اور ایمان کا نور سرمایہ وحدت ہے اور جہل ، کفر اور نفاق کی تاریکی پراکندگی کا سبب ہے ۔
اس سے پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ سورہ خدا پرستی اور توحید کی بنیادوں کو دلوں میں مستحکم کرنے کے لئے پہلے انسان کو عالم کبیر کی طرف متوجہ کرتی ہے اور بعد والی آیت میں عالم صغیر یعنی انسان کی طرف توجہ دلاتی ہے، اس سلسلہ میں انتہائی حیرےت انگیز مسئلہ یعنی اس کی خاک اور گیلی مٹی سے پیدائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ وہی خدا ہے جس نے تمھیں گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ طِینٍ )
یہ صحیح ہے کہ ہماری خلقت ہمارے ماں باپ سے ہوئی ہے نہ کہ خاک سے لیکن چونکہ سب سے پہلے انسان کی پیدائش خاک اور گیلی مٹی سے ہوئی تھی لہٰذا ہمیں اسی طرح خطاب کرنا درست ہے ۔
اس کے بعد انسان کی عمر کے کمال کو پہنچنے کے مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : اس کے بعد ایک مدت مقرر کی کہ جس میں انسان روئے زمیں میں پرورش پاکر کمال کو پہنچے( ثُمَّ قَضَی اٴَجَلًا )
”اجل“ اصل میں ”مدت معین“ کے معنی میں ہے، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آخری وقت یا موقع کو بھی اجل کہا جاتا ہے، مثلا کہتے ہیں کہ اجل دین آپہنچا یعنی قرض کی ادائیگی کا وقت آخر آپہنچا ہے، یہ جو موت کے آجانے کو اجل کہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انسان کا عمر کا آخری لمحہ اس وقت پر ہوتا ہے ۔
اس کے بعد اس بحث کی تکمیل کے لئے قرآن کہتا ہے :اجل مسمیٰ خدا کے پاس ہے( وَاٴَجَلٌ مُسَمًّی عِنْدَهُ ) ۔
اس کے بعد کہتا ہے:تم مشرک لوگ اس پیدا کرنے والے کے بارے میں کہ جس نے انسان کر بے قدر وقیمت اور حقیر چیز یعنی گیلی مٹی سے پیدا کیاہے اور تمھیں ایسے ایسے حیرت انگیز مرحلوں سے گزارا ہے، شک کرتے ہو اورانکار کا راستہ اختیار کرتے ہو، تم نے بتوں جیسی حقیر مخلوق کو خدا کہا ہم پلہ قرار دیا ہے یا تم مردوں کے زندہ کرنے اور قیامت کے برپا کرنے کے بارے میں خدا وند تعالیٰ کی قدرت میں شک وشبہ رکھتے ہو( ثُمَّ اٴَنْتُمْ تَمْتَرُونَ ) ۔
اجل مسمیٰ کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اجل مسمیٰ“”اجلا “ آیت میں دو الگ الگ معنی کے لئے ہیں اور یہ جو بعض نے دونوں کو ایک ہی معنی میں لیا ہے تو یہ لفظ ”اجل“ کے تکرار کے ساتھ ، خصوصا دوسری مرتبہ ”مسمی“ کے ہوتے ہوئے کسی طرح بھی درست نہیں ہے ۔
اسی لئے مفسرین نے ان دونوں کے فرق کے بارے میں کتنی بحثیں کیں ہیں لیکن جو کچھ قرآن کریم کی دوسری تمام آیت کے قرینہ سے اور اسی ان روایات سے جو اہل بیت پیغمبر کے وسیلہ سے ہم تک پہنچی ہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا فرق اس بات میں ہے ”اجل“ اکیلا ہو تو یہ غیر حتمی عمر ، مدت اور وقت کے معنی میں ہوتا ہے اور ”اجل مسمی“ حتمی عمر اور معین مدت کے معنی می؟ں ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں ”اجل مسمی“ طبیعی موت کو کہتے ہیں اور ”اجل“ وقت سے پہلے آنے والی موت ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ بہت سی موجودات اپنی طبعی وفطری ساخت اور ذاتی استعداد وقابلیت کے مطابق ایک طولانی مدت تک باقی رہ سکتی ہے لیکن یہ بات بھی ممکن ہے کہ اس مدت کے دوران کچھ ایسی رکاوٹیں پیدا ہوجائےں جو انھیں ان کی آخری عمر طبیعی تک پہنچ دے، مثلا ایک تیل سے جلنے والا چراغ ، اس کے تیل کی مقدار کے پیش نظر ممکن ہے کہ بیس گھنٹے روشنی دینے کی استعداد رکھتا ہو، لیکن ایک آندھی کا جھونکا یا بارش کا چھینٹا یا اس کی یا اس کی نگہداشت نہ کرنا اس کی کوتاہ عمری کا سبب بن جائے ۔
اگر چراغ کو کسی ایسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو اور تیل کے آخری قطرے تک جلتا ہوا خاموش ہوجائے تو وہ اپنی حتمی اجل کو پہنچ گیا ہے اور اگر اس سے پہلے ہی کچھ رکاوٹیں چراغ کی خاموشی کا سبب بن جائےں تو اس کی عمر کی مدت”اجل غیر حتمی“ کہیں گے ۔
ایک انسان کے بارے میں بھی معاملہ اسی طرح ہے، اگر اس کی بقا کے لئے تمام شرائط جمع ہوں اور موانع بر طرف ہوں تو اس کی ساخت اور استعداد اس بات کی مقتضی ہو گی کہ وہ ایک طولانی مدت تک زندگی بسر کرے، اگر چہ اس مدت میں آخرکار ختم ہوجانا ہے اور اس کی ایک حد ضرور ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ غذا کی بد پرہیزی کے اثر سے یا مختلف چیزوں کی عادت میں مبتلا ہونے یا خودکشی کرنے یا کچھ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اس مدت سے بہت پہلے ہی مرجائے موت کی کی پہلی صورت کو ”اجل مسمی“ اور دوسری صورت کواجل غیر حتمی کہتے ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں حتمی اجل اس صورت میں ہے جب ہم تمام علل اسباب پر نظر رکھیں اور اجل غیر حتمی اس صورت میں ہے جب صرف مقتضیات کی طرف دیکھیں ، ان دونوں طرح کے اجل کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سے مطالب واضح ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ صلہ رحمی عمر کو زیادہ اور قطع رحمی عمر کو کم کردیتی ہے
( یہاں عمر اور اجل سے مراد غیر حتمی اجل مراد ہے ) ۔
ایک آیت میں ہے کہ:”( فَاِذَا جَاءَ اَجَلهُم لَایَسْتَاٴخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُون ) “۔
جب ان کی(موت) اجل آتی ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہوسکتی ہے اور نہ آگے(۱) ۔
____________________
۱۔ اعراف ،۳۶۔