8%

آیت ۳۷

۳۷( وَقَالُوا لَوْلاَنُزِّلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلَی اٴَنْ یُنَزِّلَ آیَةً وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُون ) ۔

ترجمہ:

۳۷ ۔ اور انھوں نے کہا کہ کوئی نشانی( اور معجزہ) اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر کیوں نازل نہیں ہوتا، تم کہہ دو کہ خدا وند تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی نازل کرے لیکن ان میں سے اکثر کو اس کا علم نہیں ہے ۔

بہانہ جوئی

اس آیت میں مشرکین کی بہانہ جوئی میں سے ایک بہانہ جوئی بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ جب سرداران قریش میں سے کچھ قرآن کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تو پیغمبر سے کہنے لگے کہ ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر تم سچ کہتے ہو تو عصا ئے موسیٰ(علیه السلام) اور ناقہ صالح(علیه السلام) جیسے معجزات ہمارے لئے لے آؤ، قرآن اس بارے میں کہتا ہے کہ انھوں نے کہا کہ کوئی نشانی اور معجزہ اس کے پرور دگار کی طرف سے اس پر کیوں نازل نہیں ہوا( وَقَالُوا لَوْلاَنُزِّلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّه ) ۔

یہ بات واضح ہے کہ وہ یہ تجویز حقیقت کی تلاش کے لئے پیش نہیں کرتے تھے کیوں کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم ان کے لئے کافی مقدار میں معجزات لاچکے تھے اور اگر قرآن کے علاوہ جو مضامین عالیہ پر مشتمل ہیں ، آپ کے پاس کوئی معجزہ نہ بھی ہوتا تو وہی قرآن جو انھیں کئی آیات میں باقاعدہ مقابلے کی دعوت دے چکا تھا اور اصطلاح کے مطابق انھیں چیلینج کرچکا تھا، وہی آپ کی نبوت کے اثبات کے لئے کا فی تھا لیکن یہ ابوالہوس بہانہ جو ایک طرف سے یہ چاہتے تھے کہ کہ قرآن کی تحقیر کریں اور دوسری طرف سے پیغمبر کی دعوت قبول کرنے سے روگردانہ کرے، لہٰذا پے درپے نئے سے نئے معجزہ کی درخواست کرتے تھے اور مسلمہ طور پر اگر پیغمبر ان کی درخواست کو تسلیم بھی کرلیتے تو ”ھذا سحر مبین“ کہہ کر سب ان کا انکار کردیتے، جیسا کہ قرآن کی دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔

لہٰذا قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: خداوند تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی ایسی نشانی اور معجزہ (کہ جس کا تم مطالبہ کررہے ہو) اپنے پیغمبر پر نازل کرے( قُلْ إِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلَی اٴَنْ یُنَزِّلَ آیَةً ) لیکن اس میں ایک ایسا اشکال ہے جس سے تم بے خبر ہو اور وہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کے تقاضوں پر جو تم ہٹ دھرمی کی بنا پر کرتے ہو تمھاری بات مان لی جائے اور تم پھر بھی ایمان نہ لاؤ تو تم سب کے سب خداوند تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوکر نابود ہوجاؤ گے ، کیوں کہ پروردگار عالم کی بارگاہ اقدس میں اور اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی آیات ومعجزات کی انتہائی بے حرمتی ہے لہٰذا آیت کے آخر میں فرما تا ہے: لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں( وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُون ) ۔

ایک اشکال اور اس کا جواب

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے بعض مخالفین اسلام نے اس آیت کو دستاویز قرار دیتے ہوئے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے پاس کائی معجزہ نہیں تھا کیوں کہ جس وقت کفار ان سے معجزہ دکھانے کا تقاضا کیا کرت تھے تو ان سے اتنا کہنے پر ہی قناعت کیا کرتے تھے کہ خدا ہی ایسی چیزوں پر قدرت رکھتا ہے لیکن تمھاری اکثریت نہیں جانتی، اتفاق کی بات یہ ہے کہ متاخرین میں سے بعض لکھنے والوں نے بھی یہی پرانا افسانہ دہرایا ہے اور اپنی تحریروں میں اسی پرانے اعتراض کو دوبارہ زندہ کیا ہے ۔

جوابا عرض ہے کہ:

پہلی بات تو یہ کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے قبل وبعد کی آیات کا ٹھیک طور پر مطالعہ نہیں کیا ہے، اور یہ غور نہیں کیا کہ یہاں پر ان ہٹ دھرم لوگوں کے متعلق گفتگو ہورہی ہے جو کسی طرح بھی حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، اب اگر پیغمبر نے ان کے تقاضا کو پورا نہیں کیا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی، ورنہ قرآن میں یہ کہاں ہے کہ حق کی جستجو اور حق کو طلب کرنے والے افراد نے پیغمبر سے معجزہ کا تقاضاکیا ہو اور آپ نے ان کی خواہش کو رد کردیا ہو، اسی سورہ انعام کی آیہ ۱۱۱ میں اسی قسم کی ”ہٹ دھرم “افراد کے سلسلے میں ہے:

( وَلَوْ اٴَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیهِمْ الْمَلاَئِکَةَ وَکَلَّمَهُمْ الْمَوْتَی وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَلَکِناٴَکْثَرَهُمْ یَجْهَلُون )(۱)

دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے یہ مطالبہ سرداران قریش کی ایک جماعت کی طرف سے تھا اور انھوں نے قرآن کریم کی تحقیر اور اس سے بے پرواہی برتتے ہوئے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا اور یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم ایسے تقاضوں کے سامنے جن کا سرچشمہ ایسے اسباب ہوں سر نہیں جھکا سکتے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں انھوں نے گویا قرآن کریم کی باقی تمام آیات کو اپنی نگاہ سے دور رکھا ہے کہ کس طرح قرآن نے خود ایک جاودانہ معجزہ کے طور پر اپنا تعارف کروایا ہے اور بارہا مخالفین کو مقابلے کی دعوت دیتا رہا ہے اور ان کے ضعف وناتوانی کو آشکار کرچکا ہے ۔

معترضین نے سورہ اسراء کی پہلی آیت کو بھی بھلا دیا ہے جو صریحا کہتی ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ یہ بات باور نہیں کی جاسکتی کہ قرآن انبیاء ومرسلین کے معجزات خارق عادات سے پر ہو اور پیغمبر اسلام کہیں کہ میں تمام انبیاء کا خاتم ہوں ، سب سے افضل وبر تو ہوں اور میرا دین بالاترین دین ہے لیکن حق کے متلاشیوں کے لئے کمترین معجزہ بھی اپنی طرف سے نہ دکھا سکے، کیا اس صورت میں غیر جانبدار حقیقت طلب افراد کے لئے اس کی دعوت میں نقطہ ابہام پیدا نہیں ہوگا ۔

اگر ان کے پاس کوئی معجزہ نہ ہوتا تو ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ دوسرے انبیاء کے معجزات کا بالکل ہی نام تک نہ لیتے تاکہ وہ اپنے پروگرام کی توجیہ کرسکیں اور اپنے اوپر کئے جانے والے اعتراضات کے راستوں کو بند کردیں ، اور یہ باے کہ وہ برملا کھلے دل کے ساتھ پے در پے دوسروں کے معجزات بیان کررہے ہیں اور موسیٰ (علیه السلام) بن عمران (علیه السلام)، عیسیٰ (علیه السلام) بن مریم (علیه السلام) ، ابراہیم (علیه السلام) ،صالح (علیه السلام) او نوح (علیه السلام) کے خارق عادت کام اور معجزات کو ایک ایک کرکے بیان کرتے چلے جارہے ہیں یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اپنے معجزات کی طرف سے کامل مطمئن تھے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام، معتبر روایات اور نہج البلاغہ میں پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مختلف قسم کے معجزات نقل ہوئے ہیں کہ جن کا مجموعہ حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے ۔

____________________

۱۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ: اگر ہم ان کے پاس فرشتے نھی نازل کرتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزوں کو گروہ در گروہ ان کے پاس لا کھڑا کرتے تو یہ ایمان لانے والے نہ تھے ۔مترجم۔