حضرت ابراہیم - کا توحید پر استدلال
اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ حضرت ابراہیم - نے آفتاب و مہتاب اور ستاروں کے غروب ہونے سے ان کی ربوبیت کی نفی پر کس سے استدلال کیا؟
ممکن ہے کہ یہ استدلال تین طریقوں سے ہو:
۱ ۔ موجودات کا پروردگار اور مربی( جیسا کہ لفظ” رب“سے معلوم ہوتا ہے) ایسا ہونا چاہیے کہ جس کا مخلوقات کے ساتھ ہمیشہ قریبی ربط ہو کہ ایک لحظہ کے لیے بھی اُن سے جدا نہ ہو، اس بناء پر وہ موجود جو غروب ہوجائے اور کئی ساعت تک اپنے نور و برکت کو ختم کیے رکھے اور بہت سے موجودات سے بالکل بیگانہ ہوجائے، ان کا پروردگار اور رب کس طرح ہوسکتا ہے؟
۲ ۔ وہ موجود جو غروب و طلوع کرنے والا ہے وہ قوانین کے چنگل کا اسیر ہے، وہ چیز جو خود ان قوانین کی محکوم ہے وہ ان پر حاکم اور ان کی مالک کس طرح ہوسکتی ہے۔ وہ خود ایک کمزور مخلوق ہے اور ان کے تابع فرمان ہے اور اُن سے انحراف اور تخلف کی کم سے کم توانائی بھی نہیں رکھتی۔
۳ ۔ جو موجود حرکت رکھتا ہے وہ یقینا ایک حادث موجود ہے کیونکہ جیسا کہ فلسفہ میں تفصیل کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ حرکت ہر مقام پر حدوث کی دلیل ہے کیونکہ حرکت خود ایک قسم کا وجود حادث ہے اور وہ چیز جو معرض حوادث میں ہے یعنی حرکت رکھتی ہے وہ ایک ازلی و ابدی وجود نہیں ہوسکتی۔(غور کیجئے)۔
”کذالک“سے کیامراد ہے۔ ؟
۱ ۔ زیر بحث آیت میں لفظ ”کذالک“(اسی طرح سے) اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح سے ہم نے ابراہیم کی عقل و خرد کے لیے بت پرستی کے مضراّت و نقائص واضح کیے تھے اِسی طرح سے آسمان و زمین پر خدا کی حکومت و مالکیت کی بھی ہم نے اُسے نشاندہی کرائی، بعض مفّسرین نے کہا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ہم نے تجھے اپنی قدرت و حکومت کے آثار آسمانوں پر دکھائے اسی طرح ابراہیم کو ہم نے دکھائے تھے تاکہ ان کے ذریعے وہ خدا سے زیادہ آشنا ہوجائے۔
”جن“ “سے مراد
۲ ۔ ”جن“ (مادہ ”جن“ بروزن ”فن“سے)کسی چیز کو چھپانے کے معنی میں ہے اور زیر بحث آیت میں جملہ کا معنی یہ ہے کہ ”جب رات نے ابراہیم- سے موجودات کا چہرہ چھپادیا اور“۔ اور یہ جو دیوانہ کو مجنون کہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ گویا ایک پردہ اس کی عقل پر پڑگیا ہے اور نظر آنے والے موجود کو جو جن کہتے ہیں تو وہ بھی اسی لحاظ سے ہے۔ جنین بھی بچے کے شکم مادر میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ہے اور جنت کا اطلاق بہشت اور باغ پر بھی اسی بناپر ہے کہ اس کی زمین درختوں کے نیچے چھپی ہوئی ہوتی ہے اور دل کو جنان (بروزن زمان) اسی لیے کہتے ہیں چونکہ وہ سینہ کے اندر پوشیدہ ہے، یا یہ کہ وہ انسان کے اسرار اور رازوں کو چھپائے رکھتا ہے۔
”کوکباً“کونسا ستارہ مراد ہے؟
۳ ۔ یہ کہ ”کوکباً“ (ایک ستارہ )سے کونسا ستارہ مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن زیادہ تر مفسرین نے زہرہ یا مشتری کا ذکر کیا ہے اور کچھ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانوں میں ستاروں کی پرستش کی جایا کرتی اور ”اٰلھة“ (خداوں )کا حصہّ شمار ہوتی تھے لیکن اس حدیث میں جو امام علی- بن موسیٰ رضا سے ”عیون الاخبار“ میں نقل ہوئی ہے کہ یہ تصریح ہوئی ہے کہ یہ زہرہ ستارہ تھا، تفسیر علی بن ابراہیم میں بھی امام صادق- سے یہی بات مروی ہے ۔(۱)
بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ کلدہ اور بابل کے لوگوں نے وہاں بت پرستوں کے ساتھ مقابلے اور مبارزے شروع کررکھے تھے اور ہر ایک ستارے کو خالق یا کسی خاص موجودات کا رب النوع سمجھے تھے، ” مریخ “کو رب النوع جنگ اور مشتری کو رب النوع عدل وعلم اور عطارد کو رب النوع وزراء اور آفتاب کو سب کا پادشاہ سمجھے تھے ۔(۲)
____________________
۱۔ تفسیر نور الثقلین جلد اول صفحہ ۷۳۵ و صفحہ ۷۳۷-
۲۔ تفسیر ابوالفتوح جلد چہارم صفحہ ۴۶۷ (حاشیہ )-