آیت ۹۳
۹۳( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللَّهِ کَذِبًا اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّهُ وَلَوْ تَرَی إِذْ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَةُ بَاسِطُوا اٴَیْدِیهِمْ اٴَخْرِجُوا اٴَنفُسَکُمْ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللَّهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِهِ تَسْتَکْبِرُونَ ) -
ترجمہ:
۹۳ ۔ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ اس پر وحی نازل نہ ہوئی ہو اور وہ شخص کہ جو یہ کہے کہ میں بھی ایسا ہی (کلام) جیسا کہ اللہ نے نازل کیا ہے نازل کروں گا اور اگر تم ان ظالموں کو اُس وقت دیکھو جب کہ یہ موت کے شدائد میں گھرے ہوں گے اور فرشتے ہاتھ پھیلائے انھیں کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جان (اور روح) کو باہر نکالو۔ آج تم اُن دروغ گوئیوں کے بدلے جو تم نے خدا پر باندھی تھیں اور اس کی آیات کے سامنے جو تکبر تم کیا کرتے تھے اس کے بدلے ذلیل کرنے والے عذاب دیکھو گے (اور اس دن ان کی حالت پر تمھیں افسوس ہوگا)۔
شان نزول
اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں منابع حدیث اور کتب تفاسیر میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ۔ منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن سعد نامی ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جو کا تبِ وحی تھا، پھر اس نے خیانت کی تو پیغمبر نے اُسے دھتکاردیا (اور اپنے پاس سے نکال دیا) اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں بھی قرآنی آیات جیسی آیات لاسکتا ہوں ۔ مفسرّین کی ایک جماعت نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت یا اس کا کچھ حصّہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں نازل ہوا ہے کہ جو نبوت کا چھوٹا دعویٰ کرنے واولوں میں سے تھا۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ مسیلمہ کا قصّہ پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری زمانے کا ہے اور یہ سورہ مکی سورتوں میں سے ہے، اس شان نزول کے طرفدار یہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ یہ آیت اس سورہ کی چند دوسری آیات کی طرح مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و ستم کے حکم سے اس سورہ کی آیت کے درمیان قرار دے دی گئی ہے۔
لیکن ہر صورت میں قرآن کی دوسری تمام آیات کی مانند کہ جو خاص حالات میں نازل ہوئی ہیں اور ان کا مضمون و مطلب کلی اور عمومی ہے اس آیت کا مضمون و مطلب بھی کلی و عمومی ہے، اور ایسے تمام مدعیان نبوت اور ان جیسے تمام لوگوں پر محیط ہے۔
ایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے
گذشتہ آیات کے بعد کہ جن میں کسی بھی شخص پر کتب آسمانی کے نزول کی نفی کے بارے میں یہود کی گفتگو کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، اس آیت میں دوسرے ایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے جو ان کے نقط مقابل میں ہیں اور اپنے اوپر وحی آسمانی کے نزول کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ بالکل جھوٹ بولتے ہیں ۔
حقیقت میں زیر بحث آیت میں اس قسم کے افراد کے تین کرو ہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
قرآن پہلے کہتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا کہ جو خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں کسی آیت کی تحریف کرتے ہیں ، اور خدا کے کلاموں میں سے کسی کو بدل دیتے ہیں( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا ) ۔
دوسرا گروہ ان کا ہے جو نبوت اور وحی کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ نہ وہ پیغمبر ہیں اور نہ ہی اُن پر وحی نازل ہوتی ہے،( اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ ) ۔
تیسرا گروہ ان کا ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بنوت کے انکار کے طور پر یا تمسخر اور استہزا سے کہتے ہیں کہ: ”ہم بھی اس قسم کی آیات نازل کرسکتے ہیں حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور وہ اس کام کی کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتے( وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّهُ ) “۔
ہاں یہ سب کے سب ستم گر ہیں اور ان سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہے کیونکہ وہ خدا کے بندوں پر راہ حق کو بند کردیتے ہیں اور انھیں راستے سے ہٹا کر سرگردان کردیتے ہیں ، اور سچے رہبروں کی ہدایت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوگا کہ ایسے افراد جو رہبری کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے وہ رہبری کا دعویٰ کریں ۔ وہ بھی خدائی اور آسمانی رہبری کا۔
اگر چہ آیت مدعیان نبوت ووحی سے ربط رکھتی ہے، لیکن اس کی روح اُن تمام افراد پر محیط ہے جو جھوٹ طریقہ سے کسی ایسے مقام کا دعویٰ کریں کہ جس کے وہ اہل نہیں ہیں ۔
اس کے بعد اس قسم کے افراد کی دردناک سزایوں بیان کی گئی ہے: اے پیغمبر!اگر تم ان ظالموں کو اس دقت میں دیکھو جب کہ جان کنی کے شدائد میں غرق ہوں گے اور روح قبض کرنے والے فرشتہ ہاتھ پھیلائے ہوئے ان سے کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جان کو باہر نکالو، تو تم دیکھو گے کہ ان کی حالت بہت ہی دردناک اور افسوس ناک ہے( وَلَوْ تَرَی إِذْ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَةُ بَاسِطُوا اٴَیْدِیهِمْ اٴَخْرِجُوا اٴَنفُسَکُمْ ) ۔(۱)
اس حالت میں عذاب کے فرشتے اُن سے کہتے ہیں : آج تم دو کاموں کی وجہ سے ذلیل و خوار کرنے والے عذاب میں گرفتار ہوگے، پہلا یہ کہ تم خدا پر جھوٹ باندھتے تھے اور دوسرا یہ کہ اس کی آیات کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے تھے( الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللَّهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِهِ تَسْتَکْبِرُونَ ) ۔
چند قابلِ توجہ نکات
۱ ۔ نبوت کے جھوٹے دعویداروں اور بناوٹی رہنماؤں اور رہبروں کا جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں آیت میں بدترین ظالم کی حیثیت سے تعارف کرایا گیا ہے اور حقیقت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہے کہ کسی کی فکر کو چرالیا جائے اور اُس کے عقیدے کو خراب کردیا جائے اور راہ سعادت اس پر بند کردی جائے اور اُسے اپنی فکری نو آبادی بنالیا جائے۔
۲ ۔ ”( باسطوا ایدیهم ) “ کا جملہ ممکن ہے اس معنی میں ہوکہ قبض روح کرنے والے فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہی ان کی روح کو قبض کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں سزا دینے کی ابتدا کرنے کے لیے ہاتھ پھیلانے کے معنی میں ہو۔
۳ ۔ ”( اخرجوا انفسکم ) “ (اپنی جان اور روح کو باہر نکالو) حقیقت میں یہ قیض روح کرنے والے فرشتوں کی طرف سے اس قسم کے ظالموں کے لیے ایک قسم کی تحقیر و تذلیل ہے۔ ورنہ روح و جان کا دینا خود ظالموں کا اپنا کام نہیں ہے، بلکہ یہ ان فرشتوں ہی کا کام ہے، جیسا کہ کسی قاتل کو موت کے گھاٹ اُتارتے وقت کہتے ہیں کہ اب موت کا مزہ چکھ۔ بہر حال ان کی یہ تحقیر و تذلیل اُس تحقیر کے مقابلہ میں ہے کہ جو انھوں نے آیات خدا، انبیاء اور بندگان خدا کے بارے میں کی تھی۔
ضمنی طور پر یہ آیت روح کے استقلال اور جسموں سے ایک جدا گانہ شے ہونے پر ایک اور گواہ بھی ہے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس قسم کے گنہگاروں کی سزا جان دینے اور موت کے وقت سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔
____________________
۱۔ ”غمرات“ :جمع ہے ”غمرہ“ (بروزن ”ضربہ) کی جو اصل میں کسی چیز کے آثار کو ختم کرنے کے معنی میں ہے، اس کے بعد اس کثیر پانی کو جو کسی چیز کے تمام چہرہ کو چھپادے، نیز ان شداید، مشکلات اور مصائب کو بھی غمرہ کہا جانے لگا جو انسان کو اپنے حلق کی طرف کھینچیں ۔