آیات ۱۱۶،۱۱۷
۱۱۶( وَإِنْ تُطِعْ اٴَکْثَرَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔
۱۱۷( إِنَّ رَبَّکَ هُوَ اٴَعْلَمُ مَنْ یَضِلُّ عَنْ سَبِیلِهِ وَهُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ) ۔
ترجمہ:
۱۱۶ ۔اور اگر تم زمین پر رہنے والے لوگوں میں سے اکثر لوگوں کی اطاعت کرو گے تووہ تمھیں راہ خدا سے گمراہ کردیں گے، وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ اٹکل پچو لڑاتے رہتے ہیں ۔
۱۱۷ ۔ تیرا پروردگار ان لوگوں سے بھی خوب اچھی طرح آگاہ ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوگئے ہیں اور ان لوگوں سے بھی کہ جو ہدایت یافتہ ہیں ۔
اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے
ہم جانتے ہیں کہ اس سورہ کی آیات مکہ میں نازل ہوئی ہے اور اس زمانے میں مسلمان انتہائی اقلیت میں تھے، یہ ممکن تھا کہ ان کی اقلیت اور بت پرستوں اور مخالفین اسلام کی قطعی اکثریت بعض لوگوں کے لئے تو ہم پیدا کردے کہ اگرکہ اگر ان کا دین وآئین باطل اور بے اساس ہے تو ان کی پیروی کرنے والے اتنی اکثریت میں کیوں اور اگر ہم حق پر ہیں تو اس قدر کم تعداد میں کیوں ہیں ۔
اس آیت میں اس توہم کو دفع کرنے کے لئے کہ جو ممکن تھا کہ قبل کی آیات میں قرآن کی حقانیت کے زکر کے بعد پیدا ہوجائے، اپنے پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے: اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے تو وہ تمھیں راہ حق سے گمراہ اور منحرف کردیں گے( وَإِنْ تُطِعْ اٴَکْثَرَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ ) ۔
بعد والے جملے میں اس امر کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اس کی علت اور سبب یہ ہے کہ وہ منطق اور فکر صحیح کی بنیاد پر کام نہیں کرتے، ان کے رہنماہوا وہوس سے آلودہ گمان ہیں اور کچھ جھوٹ ، فریباور تخمینے ہیں( إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔(۱)
چونکہ قبل والی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ محض اکثریت تنہا راہ حق کی نشاندہی نہیں کرسکتی، تو اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہ کہ راہ حق صرف خدا سے حاصل کرنا چاہئے چاہے حق کے طرفدار اقلیت میں ہی کیوں نہ ہوں ، لہٰذا دوسری آیت میں اس امر کی دلیل واضح کرتا ہے کہ تیرا پروردگار کہ جو تمام چیزوں سے باخبر اور آگاہ ہے اوراس کے علم غیر متناہی میں ذرہ بھربھی اشتباہ نہیں ہے وہ بہتر طور پر جانتا ہے کہ راہ ضلالت کونسی ہے اور راہ ہدایت کون سی، اور وہ گمراہوں اور ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی بہتر طور پر پہچانتا ہے( إِنَّ رَبَّکَ هُوَ اٴَعْلَمُ مَنْ یَضِلُّ عَنْ سَبِیلِهِ وَهُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ) ۔(۲)
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسرے لوگ راہ ہدایت وضلالت کو خدا کی رہنمائی کے بغیر بھی پہچان لیتا ہے، کہ آیت یہ کہہ رہی ہے کہ خدا دوسروں سے بہتر طور پر پہچانتا اور بہتر طور پر جانتا ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ انسان اپنی عقل کے ذریعے حقائق کا ادراک کرتا ہے اور راہ ہدایت وضلالت کو کسی حد تک سمجھ لیتا ہے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ چراغ عقل کی روشنی اور اس کی شعاع محدود ہے ، اور ممکن ہے کہ بہت سے مطالب نگاہ عقل سے مخفی رہ جائیں ، علاوہ ازیں انسان اپنی معلومات میں اشتباہ میں بھی گرفتار ہوجا ہے اور اسی بنا پر وہ خدائی رہبروں اور رہنماؤں کا محتاج ہے اسی لئے یہ جملہ کہ”خدا زیادہ جانتا ہے “ صحیح ہے، اگر چہ انسان کا علم خدا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔
عددی اکثریت کچھ اہمیت نہیں رکھتی
بعض لوگوں کی نظر میں یہ بات مسلم ہے کہ عددی اکثریتیں ہمیشہ صحیح راستہ پر گامزن ہوتی ہیں لیکن قرآن کے برخلاف متعدد اایات میں اس کی نفی کرتا ہے اور وہ عددی اکثریت کے لئے کسی اہمیت کا قائل نہیں ہے اور حقیقت میں وہ اکثریت ”کیفی“ کو معیار سمجھتا ہے نہ کہ اکثریت ”کمی“ کو، اس امر کی دلیل واضح ہے، کیون کہ آج کے معاشروں میں اگر چہ معاشرے کے امور میں لوگوں کو اکثریت پر بھروسہ کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں سوجھا لیکن یہ بات بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ بات جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ایک طرح سے مجبوری کے باعث قبول کرنا پڑتی ہے، کیوں کہ ایک مادی معاشرے میں اصلاحات کرنے اور درست قوانین بنانے کا کوئی ایسا ضابطہ موجود نہیں جو اشکال اور عیب سے خالی ہو، لہٰذا بہت سے علماء اور ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے ساتھ کہ افراد معاشرہ کی اکثریت کی نظر اکثر اوقات اشتباہ آمیز ہوتی ہے اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیوں کہ دوسرے راستوں کے عیوب اس سے زیادہ ہیں ۔
لیکن ایک ایسا معاشرہ جو انبیاء علیہم السلام کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو وہ قوانین کے نفاذاورپرپا کرنے کے لئے اکثریت کی پیروی کی کوئی مجبوری نہیں رکھتا، کیون کے سچے انبیاء کے پروگرام اور قوانین ہر قسم کے نقص، عیب اور اشتباہ سے خالی ہوتے ہیں اور جن قوانین کی جائز الخطا اکثریت تصویب وتصدیق کرتی ہے ان کا ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
آج کی دنیا کے چہرے پر ایک نظر ڈالنے اور ان حکومتوں پر جو اکثریت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے نظر کرنے اور ان نادرست اور ہوس آمیز قوانین کو جو بعض اوقات اکثریتوں کی طرف تائید وتصویب شدہ ہوتے ہیں دیکھنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اکثریت عددی نے کسی درد کی دوا نہیں کی ہے، بہت سی جنگوں کی اکثریت نے ہی تصویب کی تھی اور بہت سے مفاسد کو اکثریت نے ہی چاہاتھا۔
استعمار واستثمار، جنگیں اور خونریزیاں ، شراب نوشی کی آزادی، خمار بازی، اسقاط حمل، فحشاء ومنکر یہاں تک کہ بعض ایسے قبیح وشنیع افعال کے جن کا ذکر باعث شرم ہے بہت سے ایسے ممالک جو اصطلاح میں ترقی یافتہ کہلاتے ہیں کے نمائندوں کی اکثریت کی طرف سے ہے جو ان ممالک کے عوام کی اکثریت کے نظریہ کو منعکس کرتے تھے اس حقیقت پر گواہ ہیں ۔
علمی نکتہ نظر سے کیا عوام کی اکثریت سچ ہی بولتی ہے ؟کیا اکثریت امین ہوتی ہے؟کیا اکثریت دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے سے اگر وہ کرسکے تو اجتناب کرتی ہے؟کیا اکثریت اپنے اور دوسروں کے منافع کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے؟ ۔
ان سوالات کے جواب بغیر کہے ظاہر ہیں ، اس بنا پر اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ آج کی دنیا کا اکثریت پر اعتبار اور بھروسہ کرنا حقیقت میں ایک قسم کی مجبوری اور ماحول کی ضرورت ہے اور ایک ایسی ہڈی ہے جو معاشروں کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے۔
ہاں انسانی معاشروں کے صاحبان فکرو نظر اور دلسوز مصلحین اور بامقصد سوچ رکھنے والے جو ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں اگر عوام الناس کو روشنی بخشنے کے لئے ہمہ جہتی تلاش وکوشش کریں اور انسانی معاشرے کافی حد تک فکری ، اخلاقی اور اجتماعی رشد پالیں تو مسلمہ طور پر اس قسم کی اکثریت کی نظریات حقیقت کے بہت قریب ہوں گے، لیکن غیر رشیداور نا آگاہ یا فاسد ، منحرف اور گمراہ اکثریت کون سی مشکل اپنے اور دوسروں کے راستوں سے ہٹا سکے گی ، اس بنا پر محض اکثریت اکیلی کافی نہیں ہے بلکہ صرف وہی اکثریت کہ جو ہدایت یافتہ ہو اپنے معاشرے کی مشکلات کو اس حد تک کہ جو امکان بشر میں ہے حل کرسکتی ۔
اگر قرآن مختلف آیات میں اکثریت کے بارے میں اعتراض کرتا ہے تو اس میں شک نہیں ہے کہ اس کی مراد ایسی اکثریت ہے کہ جو غیر رشید ہو اور ہدایت یافتہ نہ ہو۔
____________________
۱۔ ”خرص“ (بروزن ترس) اصل میں تخمین کے معنی میں ہے، پہلے پہل تو باغ وغیرہ کرایہ پر دینے کے وقت درختوں پر پھلوں کی مقدار کے تخمینے اور اندازے کے لئے استعمال ہوتا تھا، بعد از اں ہر قسم کے حدس وتخمین کے لئے یہ لفظ بولے جانے لگا اور چونکہ تخمینہ اور اندازہ بعض اوقات واقع کے مطابق اور بعض اوقات اس کے خلاف ہوتا ہے لہٰذا یہ لفظ جھوٹ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور مندرجہ بالا آیت میں ہوسکتا ہے دونوں معانی کے لئے ہو۔
۲۔ عموما”افعل تفضیل“،” با“ کے ذریعہ متعدی ہوجاتا ہے لہٰذا یہاں یہ کہنا چاہئے”اعلم بمن“لیکن با محزوف ہے اور ”ومن یضل “ اصطلاح کے مطابق منصوب بنزع خافض ہے۔