آیات ۱۳۳،۱۳۴،۱۳۵
۱۳۳( وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ )
۱۳۴( إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ )
۱۳۵( قُلْ یَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنِّی عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَکُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) ۔
ترجمہ:
۱۳۳ ۔ اور تیرا پروردگار بے نیاز اور مہربان ہے(لہٰذا وہ کسی کے بارے میں ظلم وستم نہیں کرتا بلکہ یہ اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتتے ہیں ) اگر وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمھارے بعد تمھاری بجائے جو کچھ چاہے (اور جسے چاہے) تمھارا جانشین بنا دے جیسا کہ تمھیں دوسری اقوام کی نسل سے وجود میں لایا ہے۔
۱۳۴ ۔ جو کچھ تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ آکر رہے گااورتم (خدا کو ) عاجز ونوتواں نہیں کرسکتے( کہ اس کی عدلات وسزا سے بچ کر بھاگ جاؤ)
۱۳۵ ۔ کہہ دو اے قوم !جو کام( تم سے ہوسکتا ہے اور) تمھاری قدرت میں ہے کر گزرو۔ میں (بھی اپنے فریضہ پر) عمل کروں گا، لیکن بہت جلد تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کونسا شخس نیک انجام رکھتا ہے (اور کامیابی کس کے لئے ہے لین) یہ بات مسلم ہے کہ ظالم فلاح ونجات حاصل نہیں کریں گے۔
تیرا پروردگار بے نیاز بھی اور رحیم ومہربان بھی ہے
پہلی آیت درحقیقت اس پر ایک استدلال ہے جو گذشتہ آیات میں پروردگار کے ظلم نہ کرنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ آیت کہتی ہے: تیرا پروردگار بے نیاز بھی ہ اور رحیم ومہربان بھی ہے ، اس بنا پر کوئی وجہ نہیں کہ کسی پر چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھی روا رکھے کیوں کہ ظلم تو وہ کرتا ہے کہ جو نیازمند ہو یا سخت مزاج اور سنگدل ہو( وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ ) ۔
علاوہ ازایں اسے نہ تو تمھاری اطاعت کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تمھارے گناہوں کا خوف ہے کیوں کہ” اگر وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمھاری جگہ پر دوسرے لوگوں کو جنھیں وہ چاہے تمھارا جانشین بنادے جیسا کہ اس نے تمھیں ایسے انسانوں کی نسل میں پیدا کیا ہے جو تم سے بہت سی صفات میں مختلف تھے( إِنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ ) ۔
اس بنا پر وہ بے نیاز بھی ہے اور مہربان بھی اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے، اس حالت میں اس کے بارے میں ظلم کا تصور ممکن نہیں ہے۔
اور اس کی لامتناہی قدرت پر توجہ رکھتے ہوئے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ” اس نے تم سے جو قیامت اور جزا وسزا کے بارے مین وعدہ کیا ہے وہ ہوکے رہے گا اور اس کی تھوڑی سی بھی خلاف ورزی نہیں ہو گی“ (إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ )۔
”اورتم اس کی حکومت سے ہرگز باہر نہیں نکل سکتے اور اس کے پنجہ عدالت سے فرار نہیں کرسکتے“( وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ ) ۔(۱)
اس کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے: انھیں تہدید کرتے اور دھمکی دیتے ہوئے کہو کہ اے قوم! تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرگزرو، میں بھی وہ کام جس کا خدانے مجھے حکم دیاہے انجام دوں گا۔ مگر تمھیں بہت ہی جلد معلوم ہوجائے گا کہ نیک انجام اور آخری کامیابی کسے نصیب ہوتی ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ ظالم وستمگار کامیاب نہیں ہوں گے اور سعادت ونیک بختی کا منہ نہیں دیکھیں گے( قُلْ یَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنِّی عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَکُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) ۔
یہاں ہم دوبارہ دیکھ رہے ہیں کہ ”کفر“ کی بجائے”ظلم“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کفر اور انکار حق ایک قسم کا واضح وآشکار ظلم ہے، اپنے اوپر بھی ظلم ہے اور معاشرے پر بھی ظلم ہے اور چونکہ ظلم جہان آفرینش کی عمومی عدالت کے برخلاف ہے لہٰذا آخر کار اسے شکست ہو گی۔
____________________
۱۔ ”معجزین“ ”اعجاز“ کے مادہ سے ہے ، یعنی دوسرے کو ناتوان اور عاجز کردینا ۔ آیت کہتی ہے کہ تم خدا کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے اور عدالت کے جاری کرنے سے عاجز نہیں کرسکتے۔ دوسرے لفظوں میں تم اس کی قدرت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔