2%

آیت ۱۰۵

۱۰۵( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ اٴَنفُسَکُمْ لاَیَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَیْتُمْ إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ِ

ترجمہ:

۱۰۵ ۔اسے ایمان والو!اپنے اُوپر نظررکھو،جب تمھیں ہدایت حاصل ہوجائے تو ان لوگوں کی گمراہی جو گمراہ ہوچکے ہیں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا نہیں سکے گی، تمام چیزوں کی بازگشت خدا کی طرف ہے اور وہ تمھیں اس عمل سے جو تم کیا کرتے تھے آگاہ کرے گا ۔

تفسیر

ہر شخص اپنے کام کا جواب دہ ہے

گذشتہ آیت میں زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی اپنے بڑوں کی اندھی تقلید کے متعلق گفتگو تھی ۔ قرآن نے واضح طور پر انھیں ڈرایا کہ اس قسم کی تقلید عقل و منطق کی رو سے درست نہیں ہے ۔ اس کے بعد فطری طور پر یہ سوال ان کے ذہن میں آتا تھا کہ اگر ہم ایسے مسائل میں اپنا معاملہ اپنے بزرگوں سے الگ کرلیں تو پھر ان کی سرنوشت کیا ہوگی، علاوہ ازین اگر ہم اس قسم کی تقلید سے دست بردار ہوجائیں تو ایسی ہی تقلید کرنے والے دیگر بہت سوں کے بارے میں کیا صورت ہوگی ۔ زیر نظر آیت اس قسم کے سوالات کے جواب میں کہتی ہے: اے ایمان لانے والو! تم اپنے ہی جوابدہ ہو، اگر تم ہدایت یافتہ ہوگئے تو دوسروں کی گمراہی (چاہے، وہ تمھارے اپنے بڑے ہوں یا ہم عصر دوست واحبات) تمھیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گی( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ اٴَنفُسَکُمْ لاَیَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَیْتُم ) ۔اس کے بعد قیامت، حساب کتاب اور ہر کسی کے اعمال کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور تم میں سے ہر ایک کا حساب الگ ہوگا اور جو کچھ تم نے انجام دیا اس سے تمھیں آگاہ کیا جائے گا( إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

ایک سوال کا جواب

اس آیت کے بارے میں بہت زیادہ آوازیں بلند ہوئی ہیں ، بعض نے یہ خیال کرلیا ہے کہ اس آیت کے درمیان اور ”امربمعروف“، ”و نہی از منکر“ کے حکم کے درمیان کہ جو اسلام کا ایک قطعی اور مسلّم حکم ہے ایک قسم کا تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ آیت کہتی ہے کہ تم اپنے حالات کی طرف توجہ کرو (اور اپنے ہی متعلق سوچ بچار کرو اور اپنی حالت میں مگن رہو) دوسروں کا انحراف اور کجروی تمھاری حالت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔

اتفاقاًروایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا اشتباہ آیت کے نزول کے زمانے میں بھی بعض کم علم لوگوں میں پایا جاتا تھا ۔

”جبیر ابن نفیل“ کہتے ہیں :

میں چند اصحاب پیغمبر کے حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا اور میں اُن میں سب سے زیادہ کم سن تھا ۔ اُنہوں نے امربمعروف اور نہی از منکر کے متعلق گفتگو شروع کردی، میں ان کی باتوں کے درمیان بول پڑا اور میں نے کہا کہ کیا خدا قرآن میں یہ نہیں کہتا:( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ اٴَنفُسَکُمْ لاَیَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَیْتُم ) اس بناپر امر بمعروف اور نہی از منکر کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ۔ اچانک اُن سب نے مجھے سرزنش کی اور کہنے لگے: تم قرآن کی ایک آیت کو اس کا معنی سمجھے بغیر الگ کررہے ہو ۔ میں اپنی گفتگو سے بہت ہی شرمندہ ہوااور انھوں نے اپنا مباحثہ جاری رکھا، جب وہ وہاں سے مجلس برخاست کرکے اُٹھنے لگے تومیری طرف رخ کرکے کہنے لگے: تُو کمسن جوان ہے اور تم نے قرآن کی ایک آیت کو اس کا معنی سمجھے بغیر اُسے باقی سے الگ کرلیا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ تم ایسے زمانے کوپاؤ کہ تم یہ دیکھو کہ بخل لوگوں پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اس کی فرمانروائی ہے، ہواہوس لوگوں کا پیشوا ہے اور ہر شخص صرف اپنی ہی رائے پسند کرتا ہے، ایسے زمانے میں تم صرف اپنی ہی خیر مناؤ، دوسروں کی گمراہی تمھیں کوئی نقصان نہیں پہچائے گی (یعنی آیت ایسے زمانے کے ساتھ مربوط ہے) ۔

ہمارے زمانے کے بعض آرام پرست بھی جب دو عظیم خدائی فرائض امر بمعروف اور نہی از منکر کی انجام دہی کی گفتگوہوتی ہے تو جوابدہی سے اپنے کندھوں کو خالی رکھنے کے لئے اس آیت کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے معنی میں تحریف کرتے ہیں حالانکہ تھوڑے غور وفکر کے بعد یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان دو احکام کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے؛

کیونکہ:

پہلی بات تو یہ ہے کہ محل بحث آیت کہتی ہے کہ ہر شخض کا حساب کتاب الگ الگ ہے اور دوسروں کی گمراہی، مثلاً اپنے گزرے ہوئے بزرگوں یا غیروں کی گمراہی ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت پر کوئی ضرب نہیں لگاتی، یہاں تک کہ اگر وہ بھائی بھائی بھی ہوں ، یا باپ بیٹا ہوں لہٰذا تم ان لوگوں کی پیروی نہ کرو اور خود اپنے آپ کو بچاؤ(غور کیجئے) ۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ آیت اس موقع کی طرف اشارہ کرتی ہے جس وقت امربمعروف اور نہی از منکر کارگر نہ ہوں ، یا ان کی تاثیر کے حالات موجود نہ ہوں ، بعض اوقات کچھ لوگ ایسے موقع پر پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان حالات میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ تمھارے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ تم نے اپنے فرض کی انجام دہی کردی ہے اور انھوں نے قبول نہیں کیا، یا ان میں قبول کرنے والوں کی اہلیت اور اسباب موجود نہیں تھے، اس بناپر کوئی نقصان تمھیں نہیں پہنچے گا ۔

یہی مفہوم اُس حدیث میں جو ہم اُوپر نقل کرچکے ہیں موجود ہے، اسی طرح بعض دوسری احادیث میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم سے اس آیت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:

اٴ یتمروا بالمعروف وتناهو عن المنکر فاذا راٴیت دنیاً موثرة وشحاً مطاعاً وهوی متبعاً واعجاب کل راٴی برایه فعلیک بخویصة نفسک وذر عوامهم

”امر بمعروف ونہی از منکر کرو، لیکن جب دیکھو کہ لوگ دنیا پسند کو ترجیح دیتے اور مقدم سمجھتے ہیں ، بخل اور ہواوہوس ان پر حکمران ہے اور ہر شخص صرف اپنی ہی رائے پسند کرتا ہے(اور ا س کے کان کسی دوسرے کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں ) تو اپنے آپ میں لگ جاؤ اور لوگوں کو چھوڑدو“(۱)

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ امر بمعروف اور نہی از منکر ارکانِ اسلام میں سے اہم ترین مسئلہ ہے، جس کی جوابدہی سے کسی طرح بھی سبکدوشی ممکن نہیں ، صرف ان مواقع پر یہ دونوں فرائض ساقط ہوجاتے ہیں جب ان کے اثرانداز ہونے کی اُمید نہ ہو اور لازمی وضروری شرائط ان میں موجود نہ ہوں(۲)

____________________

۱۔تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۶۸۴-

۲۔اس سلسلے میں تفصیلی اسلامی احکام جاننے کے لئے امام خمینی کی توضیح المسائل کے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے باب کی طرف رجوع فرمائیں ، نیز دیگر متعلق اسلامی کتب کا مطالعہ کریں (مترجم) ۔