آیات ۵۰،۵۱،۵۲
۵۰( إِنْ تُصِبْکَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَةٌ یَقُو لُوا قَدْ اٴَخَذْنَا اٴَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَیَتَوَلَّوا وَهُمْ فَرِحُونَ ) ۔
۵۱( قُلْ لَنْ یُصِیبَنَا إِلاَّ مَا کَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) ۔
۵۲( قُلْ هَلْ تَتَربَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اٴَنْ یُصِیبَکُمْ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ اٴَوْ بِاٴَیْدِینَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَکُمْ مُتَرَبِّصُونَ ) ۔
ترجمہ
۵۰ ۔اگر تجھے کوئی اچھائی پہنچے تو وہ نہیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے پہلے سے مصمم ارادہ کر رکھا ہے اور وہ خوش و خرم پلٹ جاتے ہیں ۔
۵۱ ۔کہہ دو :کوئی حادثہ ہمارا رخ نہیں کرتا مگر جو کچھ خدا نے ہمارے لے لکھ دیا ہے وہ ہمارا مولیٰ اور سرپرست ہے اور مومنین صرف خدا پر توکل کوتے ہیں ۔
۵۲ ۔کہہ دو: کیا ہمارے بارے میں دونیکیوں میں سے کسی ایک کے علاوہ تمہیں کوئی توقع ہیں (یا تو ہم تم پر کامیاب ہوجائےں گے یا جام شہادت نوش کرےں گے) لیکن ہم توقع رکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے تمہیں (اس جہان میں )یا ہمارے ہاتھ سے(اس جہان میں )عذاب پہنچے گا ،اب جب کہ معاملہ اےسا ہے تو تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں ۔
تفسیر
زیر نظر آیات میں منافین کی ایک صفت اور نشانی کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ بحث جو گذشتہ اور آئندہ آیات میں منافقین کی نشانیوں کے سلسلہ میں آئی ہے یہ اسی کے ضمن میں ہے ۔
پہلے کہا گیا ہے:۔اگر تجھے کوئی اچھائی پہنچے تو وہ نا راحت ہو جاتے ہیں اور انہیں برا لگتا ہے( إِنْ تُصِبْکَ حَسَنَةٌ تَسُؤْھُمْ ) ۔
یہ ناراحتی اور دکھ ان کی باطنی عداوت اور ایمان کے فقران کی دلیل ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص تھوڑا سا ایمان بھی رکھتا ہو اور وہ پیغمبر خدا یا کسی عام صاحب ایمان شخص کی کامیابی پر رنجیدہ ہو۔
-”لیکن اگر اس مقابلے میں تجھے کوئی مصیبت پہنچے اور تم کسی مشکل میں مبتلا ہو جاؤ تو خوش ہو کر کہتے ہیں کہ ہم تو پہلے سے ایسے حالات کی پیش بینی کر رہے تھے اور ہم نے تو مصمم ارادہ کر رکھا تھا“ اورکو ہلاکت کے اس گڑھے سے بچا چکے تھے( وَإِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَةٌ یَقُو لُوا قَدْ اٴَخَذْنَا اٴَمْرَنَا مِنْ قَبْل ) ،”اور جب وہ اپنے گھروں کو پلٹ جاتے ہیں تو تمہاری شکست“مصیبت یا پریشانی پرخوش ہوتے ہیں ( وَیَتَوَلَّوا وَھُمْ فَرِحُونَ) ۔
یہ دل کے اندھے منافقین ہر موقع سے فا ئدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی عقل کے بارے میں لاف زنی کرتے ہیں کہ یہ ہماری دانشمندی تھی کہ ہم نے فلاں میدان میں شرکت نہ کی اور وہ مشکلات جو دوسروں کو عقل نہ ہونے جی وجہ سے دامن گیر ہوئی، ہم ان میں مبتلا نہیں ہوئے، ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جامے میں پھولے نہیں سماتے، لیکن اے پیغمبر ! تم انہیں دو طرح سے جواب دو، ایسا جواب جو دندان شکن اور منطقی ہے ۔
پہلے ان سے کہو کہ ہمیں کوئی حادثہ پیش نہیں آتا مگر وہ کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے، وہ خدا جو ہمارا مولا، سرپرست، حکیم اور مہربان ہے اور جو ہماری بھلائی کے کے سوا ہمارے لئے کچھ مقدر نہیں کرتا( قُلْ لَنْ یُصِیبَنَا إِلاَّ مَا کَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ) ، جی ہاں ! اہل ایمان فقط خدا پر توکل رکھتے ہیں( وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) ، اہل ایمان صرف اس کے عاشق ہیں ، اسی سے نصرت طلب کرتے ہیں ، اپنی پیشانی اسی کی چوکھٹ پر رکھتے ہیں اور ان کی پناہ گا اس کے علاوہ کوئی نہیں ۔
یہ بہت بڑا اشتباہ ہے کہ جس میں منافقین گرفتار ہیں ، وہ خیال کرتے ہیں وہ اپنی معمولی سی عقل اور ناتواں فکر سے تمام مشکلات اور حوادث کی پیش بینی کرلیتے ہیں اور خدا کے لطف ورحمت سے بے نیاز ہیں ، وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی تمام ہستی حوادث کے کسی عظیم طوفان کے سامنے ایک تنکے کی مانند ہے یا کسی بیابان میں گرمیوں کی کسی جلادینے والی دوپہر میں پانی کے ایک قطرے کی طرح ہے، اگر لطف الٰہی شامل حال نہ ہو تو کمزور سا انسان کچھ نہیں کرسکتا ۔
”اور اے پیغمبر! تم انہیں جواب دو کہ تم ہمارے بارے میں کیا توقع رکھتے ہو سوائے اس کے کہ دو میں سے ایک سعادت ہمیں نصیب ہوجائے“ یا ہم دشمنوں کو تہس نہس کردیں گے، اور میدان جنگ سے کامیابی کے ساتھ پلٹ آئیں گے اور یا مارے جائیں گے اور عزت وافتخار سے جام شہادت نوش کریں گے ان دو صورتوں میں جو بھی پیش آئے ہمارے لئے افتخار ہے اور ہماری آنکھوں کی روشنی ہے( قُلْ هَلْ تَتَربَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ ) ، لیکن اس کے برعکس ہم تمہارے بارے میں دو میں سے ایک سیاہ دن اور بدبختی کی توقع رکھتے ہیں یا اس جہان میں تم عذاب الٰہی میں مبتلا ہوں گے اور یا ہمارے ہاتھوں تم ذلیل ونابود ہوں گے( وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اٴَنْ یُصِیبَکُمْ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ اٴَوْ بِاٴَیْدِینَا ) ۔
”جب معاملہ اس طرح ہے تو تم بھی منتظر رہو اور ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں “ تم ہماری خوش بختی اور سعادت کا انتظار کرو اور ہم تمہاری بد بختی کے انتظار میں ہیں( فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَکُمْ مُتَرَبِّصُونَ ) ۔
چند قابل توجہ نکات
۱ ۔ تقدیر اور ہماری کاوشیں :
اس میں شک نہیں ہماری سرنوشت جس قدر ہمارے کام ، کوشش اور جستجو سے مربوط ہیں وہ تو خود ہمارے ہاتھ میں ہیں ، قرآنی آیات بھی صراحت سے یہ بات بیان کررہی ہیں ۔مثلا( وان لیس للانسان الا ما سعی ) ٰ۔
انسان کے حصے میں اس کی کوشش اور سعی کے سوا کچھ نہیں ۔ ( نجم۔ ۳۹)
اسی طرح یہ بھی ہے:( کل نفس بما کسبت رهینة ) ۔
ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے ۔ (مدثر۔ ۳۸)
اسی طرح دیگر آیات بھی ہیں (اگر چہ سعی و کوشش کی تاثیر بھی سنن الٰہی کے مطابق اور اس کے فرمان کے تحت ہی ہے) ۔
لیکن ہماری کدوکاوش سے ماورا اور ہماری قدرت سے جو کچھ متجاوز ہے اس میں صرف دست قدرت کافرما ہے اور جو کچھ قانون علت کے تقاضے کے مطابق مقدار ہوا اور انجام پذیر ہوکے رہے گا اور یہ سب کچھ پروردگار کی مشیت، علم اور حکمت کے مطابق انجام پاتا ہے ۔
البتہ صاحب ایمان اور خدا پرست افراد کہ جو اس کے علم وحکمت اور لطف ورحمت پر ایمان رکھتے ہیں ان تمام مقدرات کو ”نظام احسن“ اور بندوں کی مصلحت کے مطابق سمجھتے ہیں ہر شخس اپنی حاصل کردہ اہلیت اور صلاحیتوں کے مطابق مقدر رکھتا ہے ۔
ایک منافق، ڈرپوک، سست مزاج اور منتشر جمعیت کو فنا ہی ہونا ہے اور یہ اس کی حتمی سرنوشت ہے لیکن ایک صاحب ایمان، آگاہ متحد اور عزم صمیم رکھنے والی جمعیت کی سرنوشت کامیابی کے سوا کچھی نہیں ۔
جو کچھ کہا گیا ہے اس واضح ہوجاتا ہے کہ مندرجہ بالا آیات نہ ارادہ اختیار کی آزادی کے منافی ہے اور نہ ہی انسانوں کی جبری سرنوشت اور ان کی کاوشوں کے بے اثر ہونے پر دلیل ہیں ۔
۲ ۔ مومنین کی لغت میں ”شکست“ کا لفظ نہیں :
زیر بحث آخری آیت میں ایک عجیب پختہ اور محکم منطق بیان کی گئی ہے، اسی منطق میں مسلمانوں کی تمام کامیابیوں کا حقیقی راز پنہاں ہے اور اگر پیغمبر اسلام اس کے علاوہ کوئی تعلیم اور حکم نہ بھی رکھتے ہوتے تو یہی ان کے پیروکاروں کی کامیابی کی ضمانت کے لئے کافی تھا، آپ شکست اور ناکامی کا مفہوم ان کے صفحہ روح سے مٹا دیا تھا اور ان پر ثابت کیا تھا کہ تم ہر حالت میں کامیاب ہو، تم مارے جاؤ تو کامیاب ہو اور دشمن کو قتل کردو تب بھی کامیاب ہو، تمہارے سامنے دو راستے ہیں کہ جس راستے پر بھی جاؤ منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے، کجی،الجھنیں اور گرنے کی جگہ تمہارے راستے میں نہیں ، تمہارا ایک راستہ شہادت کی طرف جاتا ہے کہ جو ایک صاحب ایمان انسان کا اوج افتخار ، آخری معراج اور بالا ترین نعمت ہے اس سے بڑھ کر افتخار اور نعمت کا انسان کے لئے تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، جو خدا کے ساتھ جان کا سودا کرے اور اس کے بدلے ایک ایسی جاودانی حیات حاصل کرے جو جوار الٰہی میں ناقابل توصیف نعمات سے مالامال ہو۔
دوسرا راستہ دشمن پر کامیابی ہے، اس کی شیطانی طاقت کو درہم برہم کرنا ہے اور انسانی ماحول کو ظالموں ، ستم گروں اور بدکاروں کے شر سے پاک وصاف کرنا ہے اور یہ بھی ایک عظیم فیض اور مسلم افتخار ہے ۔
وہ سپاہی جو اس جذبے سے میدان جنگ میں آتا ہے کبھی فرار اور دشمن کو ہشت دکھانے کی نہیں سوچتا، ایسا سپاہی کسی شخص اور کسی چیز سے نہیں ڈرتا ، خوف ووحشت، اضطراب اورشک وتردد اس کے وجود میں راہ نہیں پاتا ۔ جو لشکر ایسے سپاہیوں پر مشتمل ہوتے ہیں وہ ماقابل شکست ہوتا ہے ۔ ایسا جذبہ صرف تعلیمات اسلامی سے پیدا کیا جاسکتا ہے اور اج بھی اگر صحیح تعلیم وتربیت سے یہ منطق دوبارہ مسلمانوں میں اتاردی جائے تو تمام پسماندگیوں اور شکستوں کی تلافی ہوسکتی ہے ۔
وہ لوگ جو پہلے مسلمانوں کی پیش رفت اور آج کے مسلمانون ی پسماندگی کے علل واسباب کا مطالعہ اور تحقیق کرتے ہیں اور اسے ایک عجیب معمّا سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ آئیں اور مندرجہ بالا آیت پر تھوڑی سی غوروفکر کریں ، انہیں اس آیت سے واضح جواب مل جائے گا ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں جب منافقین کی دو شکستوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے تو اس کی الگ الگ تفصیل بیان کی گئی ہے لیکن جب مومنین کی دو کامیابیوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں سربستہ چھوڑ کر گفتگو آگے بڑھا دی گئی ہے گویا یہ دو کامیابیاں ایسی روشن، واضح اور آشکار ہیں کہ جن کی تشریح کی بالکل ضرورت نہیں اور یہ بلاغت کا ایک خوبصورت اور لطیف نکتہ ہے جو مندرجہ بالا آیت میں استعمال کیا گیا ہے ۔
۳ ۔ منافقین کی دائمی صفات:
ہم دوبارہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ان آیات کوتاریخی حوالے سے دیکھنے ساتھ ساتھ ہمیں جاننا چاہیے یہ ہمارے لئے گذشتہ اور آئندہ دور کے لئے ایک درس ہے ۔
عموما کوئی بھی معاشرہ چھوٹے یا بڑے منافقین کے ایک گروہ سے خالی نہیں ہوتا اور ان کی صفات تقریبا ایک جیسی ہوتی ہے اور وہ ایک ہی طرز کے ہوتے ہیں ، یہ لوگ نادان اور بے وقوف ہوتے ہیں اور اس کے باوجود خوپرست اور متکبر ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا عقلمند اور سمجھدار سمجھتے ہیں ، انہیں ہمیشہ لوگوں کے راحت و آرام میں رنج ہوتا ہے اور وہ ان کی پریشانیوں پر خوشحال اور خندہ زن ہوتے ہیں ، یہ لوگ ہمیشہ فضول خیالات اور شک وتردد میں کھوئے رہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ ویک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں اور ایک پیچھے پٹ جاتے ہیں ، ام کے مقابلے میں سچے مومنین ہیں جو لوگوں کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں اوران کے غم میں شریک ہوتے ہیں وہ کبھی اپنے علم اورفہم و فراست پر ناز نہیں کرتے اور کبھی اپنے آپ کو لطف الٰہی سے بے نیاز نہیں سمجھتے، وہ عشق خدا سے لبریز رہتے ہیں اور اس راہ میں کسی حادثے اور مشکل نہیں ڈرتے ۔