دو اہم نکات
۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ: بعض اوقات بعض نکتہ چین اس آیت سے اپنے لئے ایک پریشا کن مطلب اخذ کرتے ہیں ، وہ یہ منطق پیدا کرتے ہیں کہ اس آیت میں قرآن کہتا ہے: ”اگر خدا ان میں کوئی اچھائی دیکھے تو ان تک حق پہنچادے“ اور ”اگر ان حق ان تک پہنچادے تو وہ روگردانی کرتے ہیں “۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ”اگر خدا ان میں کوئی خیر دیکھے تو وہ روگردانی کریں گے“۔
یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کیونکہ گفتگو کے پہلے حصّے میں جو یہ آیا ہے کہ ”حق کو ان کے کانوں تک پہنچائے گا“ اس کے بارے میں انھیں اشتباہ ہوا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ اس سلسلے میں آمادکی رکھتے ہوں تو حق کو ان کے کانوں تک پہنچائے گا، لیکن گفتگو کے دوسرے حصّے میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اسباب فراہم نہ ہونے کی صورت میں یہ کام کرے تو وہ روگردانی کریں گے۔
لہٰذا یہ جملہ مندرجہ بالا آیت میں دو مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مذکورہ منطقی قیاس نہیں کیا جاسکتا(۱) (غور کیجئے گا)۔
یہ بالکل اس طرح ہے کہ کوئی کہے کہ: اگر میں جانتا کہ فلاں شخص میری دعوت کو قبول کرلے گا تو میں اسے دعوت دیتا لیکن اس وقت حالات ایسے ہیں کہ اگر میں اسے دعوت دوں تو وہ قبول نہیں کرے گا لہٰذا میں اسے دعوت نہیں دوں گا۔
۲ ۔ حق بات سننے کے مختلف مراحل: بعض اوقات انسان صرف الفاظ اور عبارات کو سنتا ہے لیکن ان کے مفہوم پر غور وفکر نیہں کرتا، کچھ ایسے حاالات بھی ہیں کہ جو اس قدر سننے پر تیار نہیں ہیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
( وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَاتَسْمَعُوا لِهٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیهِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُونَ )
کفار کہتے ہیں کہ اس قرآن کی طرف کان نہ دھرو اور شور مچاو شایدتم کامیاب ہوجاو تاکہ کوئی شخص حق بات نہ سُن سکے۔(حٰم سجدہ/ ۲۶)
کبھی انسان گفتگو اور الفاظ سننے کو تو تیار ہوتا ہے لیکن پھر بھی عمل کا ارادہ اور عزم نہیں کرتا، جیسے منافقین ہیں کہ جن کی طرف سورہ محمد آیت ۱۶ میں فرمایا گیا ہے:
( وَمِنْهُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ إِلَیْکَ حَتَّی إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوا لِلَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا )
ان میں سے بعض ایسے منافق ہیں جو تمھاری باتیں کان دھر کے سنتے ہیں لیکن جب وہ تیرے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو انکار یا استہزاء کے طور پر آگاہ اور باخبر لوگوں سے کہتے ہیں یہ کیا بات تھی جو محمد کہہ رہا تھا۔
بعض اوقات ان کی کیفیت کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ اگر وہ کسی بات کو توجہ سے سنیں بھی تو حق بات کا ادراک نہیں کرپاتے ان سے نیک وبد کی تمیز کی حس ہی سلب ہوجاتی ہے اور یہ خطناک ترین مرحلہ ہے۔
قرآن ان تینوں گروہوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ درحقیقت بہرے ہیں کیونکہ حقیقی سننے والا تو وہ ہے جو توجہ سے سنتا بھی ہے، سمجھتا ہے، سوچتا ہے اور از رُوئے اخلاص عمل کا بھی مصمم ارادہ رکھتا ہے۔
آج بھی کتنے لوگ ہیں جو آیاتِ قرآن سنتے وقت (بغیر تشبیہ کے، جیسے موسیقی کی آوازیں سن رہے ہوں ) احساس کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی زبان سے شور ہیجان کی کیفیت کے مظہر جملے نکلتے ہیں لیکن ان کی ساری ہمت بس یہی ہوتی ہے اور عمل میں کورے ہوتے ہیں اور یہ کیفیت مقصدِ قرآن سے میل نہیں کھاتی۔
____________________
۱۔ منطقی اصلاح کے مطابق مذکورہ قیاس میں ”حد وسط“ موجود نہیں ہے کیونکہ پہلے جملے میں ”لاٴَسْمَعَهُمْ حالکونهم یعلم فیهم خیراً “ ہے اور دوسرے جملے میں ”لاسمعهم حالکونهم لایعلم فیهم خیرا “ہے لہٰذا مندرجہ بالا دو جملوں میں حدِ وسط موجود نہیں ہے کہ اس سے قیاس کی تشکیل کی جاسکے اور یہ دونوں جملے ایک دوسرے مختلف اور الگ الگ ہیں (غور کیجئے گا)۔