3%

آیات ۳۴،۳۵،۳۶

۳۴ ۔( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُون ) ۔

۳۵ ۔( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ قُلْ اللهُ یَهْدِی لِلْحَقِّ اٴَفَمَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَهِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُهْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ) ۔

۳۶ ۔( وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِی مِنْ الْحَقِّ شَیْئًا إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۳۴ ۔ کہہ دو ! کیا تمہارے معبودوں میں سے کوئی مخلوق کو ایجان کرسکتا ہے اور پھر اسے پلٹا سکتا ہے ؟ کہہ دو ! صرف خدا نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور پھر واپس پلٹا ئے گا ۔ اس کے باوجود حق سے کیوں رو گرداں ہوتے ہو۔

۳۵ ۔ کہہ دو ! کیا تمہارے معبودوں میں سے کوئی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ کہہ دو صرف خدا حق کی ہدایت کرتا ہے ۔ کیا وہ جو حق کی ہدایت کرتا ہے پیروی کے زیادہ لائق نہیں ہے یا وہ کہ جسے ہدایت نہ کی جائے تو وہ خود ہدایت حاصل کرتا تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔

۳۶ ۔ ان میں سے اکثر سوائے گمان ( اور بے بنیاد خیالات)کے کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے ( حالانکہ ) گمان کبھی انسان کو حق سے بے نیاز نہیں کرتا(اور حق تک نہیں پہنچاتا) اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے باخبر اور آگاہ ہے ۔

حق و باطل کی ایک پہچان

ان آیات میں بھی مبداء اور معاد سے مربوط استدلالات کا سلسلہ جاری ہے ۔ پہلی آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ تمہارے معبودوں کہ جنہیں تم خدا کا شریک قرار دیتے ہومیں سے کوئی ہے جو عالم آفرینش کو ایجاد کرکے پھر لوٹا سکتا ہے( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ) ۔

اس کے بعد مزیدکہتا ہے : کہہ دو کہ خد انے عالم ِ آفرینش کو پیدا کیا ہے اور پھر اسے لوٹا ئے گا( قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُه ) ۔” اس کے با وجود حق سے کیوں رو گردانی کرتے ہو اور بے راہ روی میں سر گرداں ہو“( فَاَنَّی تُؤْفَکُون ) ۔

یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں : پہلا یہ کہ مشرکین عرب عام طور پر معاد اور قیامت کا عقیدہ خصوصاً جیسے قرآن کہتا ہے ، نہیں رکھتے تھے اس کے باوجود قرآن ان سے کیونکہ اعتراف چاہتا ہے ۔

دوسرا یہ کہ گذشتہ آیت میں مشرکین کے اعتراف کا ذکر تھا لیکن یہاں پیغمبر کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کرو تعبیر کا یہ فرق کیوں ہے ؟

لیکن ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے دونوں سوالوں کا جواب واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ مشرکین معاد ( معاد جسمانی ) کا عقیدہ نہیں رکتھے تھے ان کا بس یہ اعتقاد تھا کہ خلقت کی ابتداء خدا کی طرف سے ہے اور یہی بات معاد کو تسلیم کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ جس نے ابتداء کی ہے وہ اعادہ بھی کرسکتا ہے لہٰذا مبداء کے عقیدہ پرتھو ڑا سا بھی غور و فکر کیا جائے تو اس سے معاد کا عقیدہ ثابت ہو جا تاہے ۔

یہاں سے واضح ہو جا تا ہے کہ کس بناء پر مشرکین کی بجائے پیغمبر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کیونکہ اگر چہ معاد پر ایمان مبداء کے لئے ایمان کے لوازمات میں سے ہے لیکن چونکہ وہ اس لزوم کی طرف متوجہ نہیں تھے لہٰذا طرزِ تعبیر بدل گئی اور پیغمبر نے ان کی جگہ اعتراف کیا ۔

دوبارہ پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ کیا کوئی تمہارے جعلی معبودوں میں سے حق کی طرف ہدایت کرسکتا ہے( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقّ ِ ) ۔کیونکہ معبود کو اپنی عبادت کرنے والوں کا رہبر ہو نا چاہئیے اور رہبری بھی حق کی طرف کرنا چاہیئے ۔ حالانکہ مشرکین کے معبود چاہے وہ بے جان بت ہوں یا جاندار، کوئی بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ ہدایت الہٰی کے بغیر حق کی طرف رہبری کرسکے کیونکہ حق کی طرف ہدا یت کرنا مقام ِ عصمت اور خطاہ و اشتباہ سے محفوظ ہونے کا مقام ہے او ریہ خدا کی ہدایت اور حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، لہٰذا بلا فاصلہ مزید فرمایا گیا ہے : کہہ دو کہ صرف خدا ہی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے( قُلْ اللهُ یَهْدِی لِلْحَقِّ ) ۔تو ایسے میں ” کیا وہ جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے پیروی کے زیادہ لائق ہے یا وہ کہ جس کی ہدایت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اسے ہدایت کی نہ جائے( اٴَفَمَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَهِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُهْدَی ) ۔

آیت کے آخر میں سر زنش کے انداز میں اور جھنجوڑ تے ہوئے فرمایا گیا ہے : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو( فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ) ۔

زیر نظر آخری آیت میں ان کے انحراف کی بنیا داور سر چشمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان میں سے اکثر خیال اور گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے جبکہ خیال اور گمان کبھی بھی انسان کو نہ حق سے بے نیاز کرسکتا ہے اور نہ حق تک پہنچا سکتا ہے( وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِی مِنْ الْحَقِّ شَیْئًا ) ۔

جو لوگ کسی منطق اور حساب کتاب کے تابع نہیں ، آیت کے آخر میں انھیں تہدید آمیز لہجے میں کہا گیا ہے : جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں ، خدا اس کا عالم اور جاننے والا ہے( إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”خدا ہی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے “

۔ مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ صرف خدا حق کی ہدایت کرتا ہے یہ انحصار یا تو اس بناء پر ہے کہ ہدایت کے مراد راستہ دکھا نا نہیں ہے بلکہ مقصد تک پہنچا نا بھی ہے او ریہ کام صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور یا اس بناء پر ہے کہ راستہ دکھا نا اور اس کی نشاندہی کرنا بھی پہلے درجے میں خدا ہی کا کام ہے اور ا س کے غیر یعنی انبیاء الہٰی اور ہادیان بر حق صرف اس کے طریق ہدایت سے ہدایت کے راستوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور اس کی تعلیم سے عالم ہوتے ہیں ۔

۲ ۔ مشرکین کے معبود خود ہدایت کے محتاج ہیں :

یہ جو زیر بحث آیات میں آیا ہے کہ مشر کین معبود نہ صر ف کسی کو ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ خود بھی ہدا یت الٰہی کے محتاج ہیں اگر پتھر اور لکڑی کے بتوں کے بارے میں صادق نہیں آتا کیونکہ وہ تو بالکل شعور نہیں رکھتے تھے لیکن صاحب شعور معبودوں کے بارے میں مثلاً جن فرشتوں اور انسانوں کو معبود قرار دیا گیا ہے پرمکمل طور پر صادق آتا ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مذکورہ جملہ ایک قضیہ شرطیہ کے معنی میں ہو یعنی فرض کریں کہ بت عقل و شعور رکھتے ہوتے تو خدائی راہنمائی کے بغیر خودراہ تلاش نہ کرسکتے چہ جائیکہ دوسروں کی راہنمائی کرتے ۔

بہر حال مندرجہ بالا آیات اچھی طرح سے نشاندہی کرتی ہیں کہ بندوں کے لئے خدا کا ایک طرف سے ہدایت کا ایک بنیادی پر وگرام ہے جس کے تحت انھیں حق کی طرف ہدایت کی جاتی ہے اور یہ کام عقل و خرد بخشنے ، طریق ِ فطرت سے انھیں مختلف درس دینے ، جہانِ خلقت میں اپنی آیات دکھانے اور اسی طرح انبیاء اور آسمانی کتب بھیجنے کے ذریعے عمل پذیر ہوتا ہے ۔

۳ ۔ بت پرست گمان کی پیروی کرتے ہیں :

زیر بحث آخری آیت میں ہم نے پڑھا ہے کہ اکثربت پرست اور مشرک اپنے ظن و گمان کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ کیوں نہیں فرمایا کہ وہ سب کے سب ایسے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام بت پرست اس گمان باطل میں شریک ہیں کہ وہ بتوں کو حقیقی معبود، نفع و نقصان کا مالک اور بار گاہ ِ خدا میں شفیع خیال کرتا ہوں ۔ اسی بناء پر بعض مجبور ہوئے ہیں کہ لفظ ” اکثر “ سے تمام کے معنی مراد لیں اور ان کا نظر یہ ہے کہ یہ بعض اوقات تمام او ر کل کے معنی میں آتا ہے ۔

لیکن یہ جواب کوئی زیادہ قابل ِلحاظ نہیں ہے ۔بہتر یہ ہے کہ ہم کہیں کہ بت پرست دو طرح کے ہیں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بیہودہ ، نادان او رجاہل ہیں اور غلط سلط خیالات او رگمانوں کے زیر اثر رہتے ہیں اور انھوں نے بتوں کو پرستش کے لئے منتخب کر رکھا ہے جب کہ اقلیت میں وہ بت پرست ہیں جو سیاہ دل اور آگاہ ہیں اور اکثریت کے رہبر و راہنما ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بت پرستی کے لئے بے بنیاد ہونے کو جاننے کے باوجود اپنے مفادات کے لئے لوگوں کو بتوں کی طرف دعوت دیتے ہیں لہٰذ اخدا صرف پہلے گروہ کو جواب دیتا ہے کیونکہ وہ قابل ہدایت ہیں ۔ لیکن دوسرا اگر وہ جو جان بوجھ کر غلط راستے چل رہے اسے بالکل قابل ِ اعتناء قرار نہیں دیتا۔

۴ ۔ علماء اصول کی ایک بحث:

کچھ علماء اصول زیر نظر آیت اور اس قسم کی آیا ت کو اس امر کی دلیل سمجھتے ہیں کہ ظن اور گمان کسی طرح حجت اور سند نہیں بن سکتے اور صرف قطعی دلائل پر ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے لیکن بعض دیگر علماء کہتے ہیں کہ فہقی دلائل میں ہمارے پاس بہت سے ظنی دلائل ہیں (مثلاً الفاظ کے ظواہر کا حجت ہونا ، دو عادل گواہوں کی گواہی ی اخبر واحد ثقہ اور اس قسم کے دیگر دلائل ) وہ کہتے ہیں کہ زیر نظر آیت اس امر کی دلیل ہے کہ اصلی قاعدہ کے مطابق ظن حجت نہیں ہے مگر یہ کہ کسی ظن کا حجت ہو نا قطعی دلیل سے ثابت ہ وجائے ، جیسے مذکورہ چند مثالوں کے بارے میں ہے ۔

مگرانصاف یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت صرف بے اسا س خیالات اور بے ہودہ گمانوں کے بارے میں بات کررہی ہے جیسے بت پرستوں کے گمان ۔ اس آیت کا تعلق اس ظن سے نہیں جو عقلاء کے نزدیک قابل ِ اعتماد ہے لہٰذا مندرجہ بالا آیت اور اس طرح کی دیگر آیات سے ظن کے حجت نہ ہونے کے بارے میں سند پیش نہیں کی جاسکتی۔ ( غور کیجئے گا )