دو قابل توجہ نکات
۱ ۔”( من یستمعون ) “ اور ”( من ینتظر ) “ سے کیا مراد ہے :
یہ جو دوسری آیت میں ہے کہ ” ان میں سے کچھ لوگ تیری بات سنتے ہیں “ او رتیسری آیت میں ہے کہ ” ان میں سے کچھ نہیں جو تیری طرف دیکھتے ہیں “اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ تیری اعجاز نما باتوں کو سنتے ہیں او رکچھ سنتے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جو تیرے معجز نشان اعمال دیکھتے ہیں کہ جو سب کے سب تیری صدق ِ گفتار او رتیری دعوت کی حقانیت کی دلیل ہیں لیکن کان دھرنے او ردیکھنے والے ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھا تا ، کیونکہ ان کی نگاہ فہم و ادراک کی نگاہ نہیں ہے ، بلکہ تنقید ، عیب جوئی ، اور مخالفت کی نظر ہے ۔ وہ کان دھر کے سننے سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے کوینکہ ان کا مقصد مفہوم سخن نہیں ہوتا بلکہ وہ تو تکذیب او رانکار کے لئے بہانے تلاش کرتے پھر تے ہیں او رہم جانتے ہیں کہ انسان کے اعمال کی بنیاد اس کا رادہ اور نیت ہی ہے ۔ نیت اور ارادہ ہی انسانی اعمالک ے اثرات کو دگر گون کردیتا ہے ۔
۲ ۔ ”( ولوکانوا لایعقلون ) “ اور ”( ولوکانوا لایبصرون ) “ کا مفہوم :
زیر نظرا لفاظ سننا کافی نہیں بلکہ دوسری آیت کے آخر میں ” ولو کانوا لایعقلون “ آیا ہے ۔ اور تیسری آیت کے اختتام پر ”ولو کا نوا لا یبصرون “ آیا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ فقط کانوں سے تفکرو تدبر بھی ضروی ہے تاکہ انسان الفاظ کے مفاہیم سے فائدہ اٹھائے اسی طرح کسی چیز کو آنکھوں سے صرف دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ بصیرت او رجن چیزوں کو انسان دیکھتا ہے انھیں سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ان کی گہرائی تک پہنچے اور ہدایت حاصل کرے ۔