آیات ۶۶،۶۷
۶۶ ۔( اٴَلاَإِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ شُرَکَاءَ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ همْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔
۶۷ ۔( هُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ اللَّیْلَ لِتَسْکُنُوا فِیهِ وَالنّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ) ۔
ترجمہ
۶۶ ۔ آگاہ ہو کہ وہ تمام جو آسمانوں میں ہیں اور زمین ہیں ، خدا کے ہیں اور جو غیر خد اکو اس کا شریک بناتے ہیں وہ دلیل و منطق کی پیروی نہیں کرتے وہ صرف ظن او رگمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ صرف جھوٹ بولتے ہیں ۔
۶۷ ۔ وہ وہ ہے کہ جس نے تمہارے لئے رات کو پیدا کیا تاکہ اس میں سکون حاصل کرو او راس نے دن کو روشنی بخش قرار دیا۔
اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو سننے والے رکھتے ہیں ۔
عظمت الہٰی کی کچھ نشانیاں
زیر نظر آیات دوبارہ مسئلہ توحید و شرک کی طرف لوٹتی ہیں یہ مسئلہ اسلام اور ا س سورہ کے اہم ترین مباحث میں سے ہے ۔ ان آیات میں مشرکین کی خبر لی گئی ہے اور انکی عاجزی و ناتوانی کو ثابت کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : آگاہ ہو کہ وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کے لئے ہیں ( اور اس کی ملکیت ہیں )( اٴَلاَإِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔
جہاں اشخاص اس کی ملکیت ہوں اور اس کے لئے ہوں وہاں اشیاء اس جہاں میں بدرجہ اولیٰ اس کی ہیں اور اس کے لئے ہیں اس بناء پر وہ تمام عالم ہستی کا مالک ہے اس حالت میں کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے مملوک اس کے شریک ہوں ۔
مزید ارشاد ہوتا ہے : جو لوگ غیر خدا کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں وہ دلیل و منطق کی پیروی نہیں کرتے اور ان کے پاس اپنے قول کے لئے کوئی سند اور شاہد نہیں ہے( وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ شُرَکَاءَ ) ۔
وہ صرف بے بنیاد تصورات اور گمانوں کی پیروی کرتے ہیں( إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّن ) ۔
بلکہ وہ تو صرف تخمینے سے بات کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں( وَإِنْ همْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔
” خرص “ لگت میں ” جھوٹ“ کے معنی میں بھی آیا ہے اور تخمین او روہم و خیال کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ دراصل جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ یہ پھلوں کی جمع آوری کے معنی میں ةے اور بعد ازاں حساب کے لئے جمع کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔
نیز درختوں پر پھلوں کا تخمینہ اور اندازہ لگانے کو کہتے ہیں اور چونکہ کبھی کبھی تخمینہ غلط نکل آتا ہے لہٰذا یہ مادہ ” جھوٹ “ کے معنی میں بھی آیاہے ۔
اصولی طور پر بے بنیاد گمان کی پیروی کی یہ خاصیت ہے کہ آخر کار انسان جھوٹ کی وادی میں جاپہنچتا ہے ۔ جنہوں نے بتوں کو خدا کا شریک قرار دیا تھا ان کی بیاد اوہام سے بڑھ کر نہ تھی ۔ وہ اوہام کہ جن کا تصور کرنا ہمارے لئے مشکل ہے کہ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان بے روح شکلیں اور مجسمے بنائے اور پھر اپنی بنائی ہوئی چیز کو اپن ارب اور صاحب ِ اختیار سمجھنے لگے ، اپنی تقدیر اس کے سپرد کردے اور اپنی مشکلات کا حل اس سے طلب کرے ۔ کیا یہ چیز جھوٹ اور جھوٹ قبول کرلینے کے سوا کچھ اور کہلاسکتی ہے ۔
اس آیت میں تھوڑا سے غور کرکے اس سے ایک عمومی قانون اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ جو شخص بے بنیاد گمان کی پیروی کرتا ہے آخر کار جھوٹ تک جا پہنچتا ہے ۔ صداقت اور سچائی یقین کی بنیاد پر استوار ہے اور جھوٹ کی عمارت بے بنیاد وہم و گمان کے سہارے قائم ہے ۔
اس کے بعد بحث کی تکمیل ، راہ خدا شناسی کی نشاندہی اور شرک و بت پرستی سے دوری کے لئے خدائی نعمات کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، یہ پہلو نظام خلقتاور اللہ کی عظمت ، قدرت اور حکمت کی نشاندہی کرتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ : وہ وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لئے باعثِ سکون قرار دیا ہے
( هُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ اللَّیْلَ لِتَسْکُنُوا فِیهِ ) ۔اور دن کو روشنی بخش بنا یا ہے( وَالنّهَارَ مُبْصِرًا ) ۔
نور ظلمت کا یہ نظام جسکا ذکر قرآن میں بار ہا آیا ہے ، حیرت انگیز اور پر بار نظام ہے جس میں کچھ عرصہ میں تابش ِ نور سے انسانوں کے صح حیات کو روشن کیا گیا ہے ۔ یہ عرصہ حرکت آفرین ہے اور انسا ن کو جستجو اور عمل پر آمادہ کرتا ہے ۔ دوسرا عرصہ سیاہ پردوں میں لپٹی ہوئی آرام بخش رات کا ہے ۔ اس رات کے ذریعے تھکی ہو ئی روح اور جسم کا کام اور حرکت کے لئے پھر سے تیار ہوتا ہے ۔
جی ہاں اس حساب شدہ نظام میں پر وردگار کی قدرت کی آیات اور نشانیاں ہیں لیکن ان کے لئے جو سننے والے کان رکھتے ہیں اور حقائق کو سنتے ہیں
( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ) ۔وہ جو سنتے اور ادراک کرتے ہیں اور جو ادراکِ حقیقت کے بعد اسے استعمال میں لاتے ہیں او رکام کرتے ہیں ۔
چند قابل توجہ نکات
۱ ۔ رات آرام و سکون کے لئے ہے :
رات کے بناے کا مقصد آیت میں آرام و سکون قرار دیا گیا ہے یہ ایک مسلم علمی ہے جسے آج کے علم سے درجہ ثبوت تک پہنچا یا ہے کہ تاریکی کے پر دے نہ صرف دن بھر کے کام کاج کے لئے جبری تعطیل ہیں بلکہ انسان اور دوسرے جانداروں کے اعصاب پر ان کا مستقیم اثر ہے اور انھیں اسراحت، نیند اور سکون بخشتے ہیں کس قدر ناداں ہیں وہ لوگ کہ جو رات کو ہوس رانی میں بسر کردیتے ہیں اور دن کو ِخصوصاً نشاط انگیز صبح کو نیند میں گزار دیتے ہیں ۔
اسی بناء پر ایسے لوگوں کے اعضاء ہمیشہ غیر معتدل اور بے آرام رہتے ہیں ۔
۲ ۔ ”( و النهار مبصراً ) “ کا مفہوم :
مادہ ”ابصار“ بینائی کے معنی میں ہے ۔ اس طرح ” و النھار مبصراً“ کا مفہوم یہ ہوگا کہ خدانے ” دن کو بینا قرار دیا ہے “حالانکہ دن بینا کرنے والا ہے نہ کہ خود بینا ہے یہ ایک خوبصورت تشبیہ او رمجاز ہے جو ” توصیف سبب با اوصاف مسبب “ کے قبیل سے ہے ۔ جیسا کہ رات کے بارے میں بی کہا جاتا ہے کہ ” لیل نائم “ یعنی سوئی ہوئی رات “ حالانکہ رات تو نہیں سوتی بلکہ رات سبب ہے لوگوں کے لئے سونے کا۔
۳ ۔کیا آیت ہر طرح کے ظن کی نفی کرتی ہے :
زیر نظر آیات میں ظن اور گمان کی ایک مرتبہ مذمت کی گئی ہے اور ا سے مردود قر ار دیا گیا ہے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ گفتگو بت پرستوں کے بے ہودہ اور بے بنیاد خیالات کے بارے میں ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ” ظن“ عقلی اعتبار سے سوچے سمجھے گمان کے معنی میں نہیں ہے کہ جو بعض مواقع پر مثلاً شہادت و شہود ، ظاہر ِ الفاظ ، اقرار اور تحریروں میں حجت ہے لہٰذا یہ آیات ” ظن “ کے حجت نہ ہونے پر دلیل نہیں ہوسکتیں ۔