3%

آیات ۸۳،۸۴،۸۵،۸۶

۸۳ ۔( فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلاَّ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ اٴَنْ یَفْتِنَهُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ ) ۔

۴ ۸ ۔( وَقَالَ مُوسَی یَاقَوْمِ إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ فَعَلَیْهِ تَوَکَّلُوا إِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِینَ ) ۔

۸۵ ۔( فَقَالُوا عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لاَتَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔

۸۶ ۔( وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنْ الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ ) ۔

ترجمہ

۸۳ ۔ ( شروع میں ) کوئی شخص موسیٰ پر ایمان نہ لا یا اور مگر صرف اس کی قوم کی اولاد میں سے ایک گروہ ۔ ( وہ بھی ) فرعون اور اس کے حواریوں کے خوف سے کہیں وہ ( انھیں دباو ی اگمراہ کن پرپیگنڈہ سے ) ان کے دین سے منحرف نہ کردیں ۔ فرعون زمین میں بالا دستی اور طغیان کے لئے کوشاں تھا اور وہ زیادتی کر نے والوں میں سے تھا ۔

۸۴ ۔ موسیٰ نے کہا : اے میری قوم ! اگر تم ایمان لائے ہو تو اس پر توکل کرواگر اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہو۔

۸۵ ۔ انھوں نے کہا ہم صرف خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ پر ور دگار ! ہمیں ظالم گروہ کے زیر اثر قرار نہ دے ۔

۸۶ ۔ اور ہمیں اپنی رحمت سے کافر گروہ (کے ہاتھ )سے نجات دے ۔

طاغوت ِ مصر سے حضرت موسیٰعليه‌السلام کے جہاد کا تیسرا مرحلہ

ان آیات میں فرعون سے حضرت موسیٰعليه‌السلام کے انقلابی مقابلوں میں سے ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔

ابتداء میں حضرت موسیٰعليه‌السلام پر ایمان لانے والے کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : اس واقعہ کے بعد موسیٰ پر ایمان لانے والے صرف ان کی قوم کے فرزند تھے( فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلاَّ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ ) ۔

یہ چھوٹا اور مختصر سا گروہ تھا ۔ لفظ ”ذریة “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی زیادہ تر جوان اورنوجوان تھے ۔ وہ فرعون اور اس کے حواریوں کی طرف ست سخت دباو کا شکار تھے ۔ انھیں ہر وقت یہی خوف رہتا تھا کہ فرعونی حکومت کہیں شدید دباو کے ذریعے کہ جو اہل ایمان پر روارکتھی ہے ، انھیں موسیٰ کا دین ترک کرنے پر مجبور نہ کرے( عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ اٴَنْ یَفْتِنَهُمْ ) ۔کیونکہ فرعون ایک ایسا شخص تھا جو زمین پر بالادستی چاہتا تھا( وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔وہ اسراف کرنے والا تجاوز کرنے والا تھا اور کسی حد کو قانونی نہیں سمجھتا تھا( وَإِنَّهُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ ) ۔

اس بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ موسیٰ پر ایمان لانے والی ”ذریہ“ کون سی تھی اور یہ کہ ”مِنْ قومہٖ“ کی ضمیر موسیٰ کی لوٹتی ہے یا فرعون کی طرف ۔

بعض کا خیال ہے کہ یہ فرعون کی قوم اور قبطیوں میں سے چند افراد تھے جیسے مومن آل فرعون، فرعون کی بیوی ، اس کی مشاطہ ۱

اور اس کی کنیز ظاہرا اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اکثر افراد ایمان لاچکے تھے لہٰذا یہ صورت ” ذریة من قومہ “ سے مناسبت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ تو ایک چھوٹے سے گروہ کا ذکر ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ یہ گروہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور ” بہ “ کی ضمیر موسیٰ کی طرف لوٹتی ہے کیونکہ اس سے پہلے موسیٰ کا نام آیا ہے لہٰذا ادبی قواعد کے مطابق اس ضمیر کا تعلق موسیٰ ہی سے ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ دوسرا معنی ظاہر آیت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے نیز والی آیت میں اس کے لئے ایک شاہد ہے جس میں فرمایا گیا ہے ۔( وَقَالَ مُوسَی یَاقَوْمِ )

موسیٰ نے مومنین سے کہا : اے میری قوم یعنی مومنین کو اپنی قوم قرار دیا ہے ۔

ایک ہی اعتراض ہے جو اس تفسیر پر باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل تو تمام حضرت موسیٰ پر ایمان لائے تھے نہ کہ ان کا ایک چھوٹا سا گروہ ایمان لایا تھا ۔ البتہ ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے یہ اعتراض دور ہو سکتا ہے او روہ یہ کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر انقلاب کی طرف جذب ہونے والا پہلا گروہ نوجوان کا ہوتا ہے ۔ نوجوان زیادہ پاکیزہ دل اور صاف و شفاف افکارکر کھتے ہیں ۔

مزید بر آں ان میں انقلابہ جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے ۔ مادی وابستگیاں جو بڑے بوڑھوں کا احتیاط اور مصلحت کوشی کی طرف دعوت دیتی ہیں ان میں نہیں ہوتیں نہ ان کے پاس مال و دولت ہوتا ہے کہ جس کے ضائع ہونے کا انھیں ڈر ہو اور نہ ہی مقام و منصب کہ جس کے خطرے میں پڑجانے پر وہ مضطرب ہوں لہٰذا یہ بات فطری ہے کہ گروہ حضرت موسیٰ کی طرف بہت جلد جذب ہو گیا ، اور ”ذریة“کی تعبیر اس معنی سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔

اس کے علاوہ بڑے بوڑھے بھی بعد میں اس گروہ سے ملحق ہو گئے تھے کیونکہ وہ اس وقت کے معاشرے میں کوئی مقام نہیں رکھتے تھے اور ضعیف و ناتواں تھے ۔جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے یہ تعبیر ان کے لئے کوئی بعید نہیں ہے ۔یہ بالکل اس طرح ہے جیسے اپنے تمام دوستوں کو دعوت دیتے ہوئے ہم کہتے ہیں ” آگے چلو جوانو! دعوت ہے “ اگر چہ بڑے بوڑھے ہوں اور اگر اس تعبیر کو ہم بعید سمجھیں تو پہلا احتمال پوری طرح سے باقی ہے ۔

مزید بر آں ’ذریة “ اگر چہ عام طور پر اولاد کے لئے بولا جاتا ہے لیکن اصل لغت کے اعتبار سے جیسا کہ مفردات راغب میں راغب نے کہا ہے ، چھوٹے اور بڑے دونوں کا مفہوم لئے ہوئے ہے ۔

ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ لفظ”فتنة “ کہ جو ” ان یتنھم “ میں ہے سے مراد ڈرانے ، دھمکانے اور تکلیف پہنچانے کے ذریعہ منحرف کرنا یا ہر طرح سے پریشانی اور دردِ سر پید اکرنا چاہے وہ دینی حوالے سے ہو یا غیر دینی حدالے سے ۔

بہر حال حضرت موسیٰ نے ان کی فکر اور روح کیی تسکین کے لئے محبت آمیز لہجے میں ان سے کہا: اے میری قوم ! اگت تم لوگ خدا پر ایمان لائے ہو اور اور اپنی گفتار میں اور ایمان و اسلام کے اظہار میں سچے ہو تو تمہیں اس پرتوکل اور بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ امواج و طوفانِ بلا سے نہ ڈرو۔ کیونکہ ایمان توکل سے جدانہیں ہے

( وَقَالَ مُوسیٰ یَا قَوْم إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ فَعَلَیْهِ تَوَکَّلُوا إِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِین ) ۔

”توکل “ کا مفہوم ہے کام کسی کے سپرد کرنا اور اسے وکالت کے لئے منتخب کرن۔ ” توکل “ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کو شش کرنا چھوڑ دے ، گوشہ تنہائی میں جابیٹھے او رکہے کہ میرا سہارا خدا ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسان کام کے لئے اپنی پوری کوشش کرچکے اور مشکل حل نہ ہو اور راہ سسے رکا وٹیں نہ ہٹیں تو پھر اضطراب اور وحشت کو اپنی طرف نہ آنے دے بلکہ لطف الہٰی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی ذات پاک اور قدرت ِ بے پایاں سے مدد چاہتے ہوئے مامردی کا مظاہرہ کرے ۔ مسلسل جہاد جاری رکھے یہاں تک کہ اگر اس میں طاقت بھی ہو تو اپنے آپ کو لطفِ خدا سے بے نیاز نہ سمجھے کیونکہ جو طاقت بھی ہے اسکی کی طرف سے ہے ۔

یہ ہے توکل کا مفہوم کہ جو ایمان و اسلام سے جدا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایک مومن کہ جس کا سر فرمانِ پر وردگار کے سامنے خم ہے وہ اسے ہر چیز پر قادر توانا سمجھتا ہے ۔ ہر مشکل کو اس کے ارادے کے سامنے سہل اورآسان سمجھتا ہے اور اس کے کامیابی کے وعدوں پر اعتقاد رکھتا ہے ۔

ان سچے مومنین نے موسیٰ کی دعوت کو توکل کے ساتھ قبول کیا اور کہا کہ ہم صرف خدا پر توکل کرتے ہیں( فَقَالُوا عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا ) ۔

اس کے بعد انھوں نے بار گاہ ِقدس سے تقاضا کیا کہ وہ انھیں دشمنوں کے شر، وسوسوں اور دباو سے امان میں رکھے اور عرض کیا: اے پر وردگار ہمیں فتنہ کا ذریعہ اور ظالموں کے زیر اثر قرار نہ دے( رَبَّنَا لاَتَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔پر وردگار ہمیں اپنی رحمت سے بے ایمان قوم سے نجات دے( وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنْ الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ ) ۔

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ پہلی آیت میں فرعون کو مسرفین میں سے قرار دیا گیا ہے ۔ تیسری آیت میں فرعون اور ا س کے حواریوں کو ظالم کہا گیا ہے اور آخری آیت میں انھیں کافر قرار دے دیا گیا ہے ۔ تعبیروں کا یہ فرق شاید اس بناء پر ہو کہ انسان گناہ کے راستے میں پہلے اسراف کرتا ہے ۔ یعنی حدود سے تجاوز کرتا ہے ، پھر ظلم و ستم کی بنیاد رکھتا ہے اور آخر کار معاملہ کفر و انکار پر جا کر ختم ہو جاتا ہے ۔

____________________

۱۔ مشاطہ پرانے زمانے میں اس عورت کو کہتے تھے جو امیر کبیر گھرانوں کی عورتوں کی آرائش و زیبائش کرتی تھی (مترجم ) ۔