3%

توبہ کرنے والے

گزشتہ آیت میں مدینہ داخلی اور خارجی منافقین کی کیفیت بتائی گئی تھی ان یہاں ایک گناہگار مسلمان گروہ کی طرف اشارہ کیا گیاہے انھوں نے توبہ کی اور اپنے برے اعمال کی تلافی کے لئے اقدام کیا ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان میں سے ایک گروہ نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ ) اور انھوں نے اچھے اور برے اعمال کو آپس میں ملا دیا ہے( خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا ) ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : امید ہے خدا ان کی توبہ قبول کرلے اور اپنی رحمت ان کی طرف پلٹا دے( عَسَی اللهُ اٴَنْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ ) ۔” کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے “ اور وسیع و عریض رحمت کا مالک ہے (ا( ِٕنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

مندرجہ بالا آیت میں ”عسیٰ“کی تعبیر آئی ہے یہ عموماً کامیابی اور ناکامی کے اکٹھے احتمال کے مواقع پر آتی ہے یہ شاید اس بناء پر ہے کہ انھیں امید و بیم اور خوف ورجاء کے درمیان رکھا جائے کیونکہ یہ دونوں کیفیتیں تکامل اور ارتقاء او ر تربیت کا ذریعہ ہیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ”عسیٰ “ کی تعبیر اس طرف اشارہ ہو کہ توبہ ، ندامت اور پشیمانی کے علاوہ انھیں دیگر شرائط کو بھی پورا کرنا چاہئیے اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے گذشتہ کی تلافی کرنا چاہئیے ۔ لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ کہ آیت اللہ کو غیران و رحمت کے ذکر سے مکمل کیا گیا ہے ، اس میں امید کا پہلو غالب ہے ۔

یہ با ت بھی واضح ہے کہ آیت اگر چہ ابو لبابہ کے بارے میں یا جنگ ِ تبوک کے دیگر متخلفین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس سے آیت کا وسیع معنی محدود نہیں ہو جاتا بلکہ آیت ان تمام افراد کا احاطہ کئے ہوئے ہے جو نیک وبد اعمال کو خلط ملط کر دیتے ہیں اور پھر اپنے برے اعمال پر پشیمان ہوتے ہیں ض اسی لئے بعض علماء سے منقول ہے انھوں نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا آیت نہایت امید بخش آیات ِ قرآن میں سے ہے کہ جس نے گنہ گاروں کے لئے کئی دروازے کھول دئیے ہیں اورتوبہ کرنے والوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے ۔