6%

ہم میں سے کوئی بھی یہ شک نہیں کرتا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں نہ تھا اور اس کے بعد وجود میں آیا جس طرح انسانوں کی خلقت کا سلسلہزاد و ولدکے ذریعہ ہم پر آشکار ہے اور دوسری طرف تھوڑے سے تامل و تفکر سے معلوم ہو جاتاہے کہ اس جسم و جسمانیات کے ماسواء کچھ حالات اور کیفیات مثلاًغور و فکر کرنا ، حفظ کرنا ، یاد کرنا وغیرہ جو ہمارے اندر پیدا ہوتی ہیں پوری طرح جسمانی اعضاء سے متفاوت ہیں، یہ عمومی و مشترک معلومات انسان کے لئے متعدد و متنوع سوالات فراہم کرتی ہیں جس میں سے بعض سوالات مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔موجودہ انسانوں کی نسل کا نکتہ آخر کہاں ہے اور سب سے پہلا انسان کس طرح وجود میں آیا ہے؟

۲۔ہم میں سے ہر ایک کی آفرینشکے مراحل کس طرح تھے ؟

۳۔ہمارے مادی حصہ کے علاوہ جو کہ سبھی دیکھ رہے ہیں کیا کوئی دوسرا حصہ بنام روح بھی موجود ہے ؟

۴۔اگر انسانوں میں کئی جہتیں ہیں تو انسان کی واقعی حقیقت کو ان میں سے کون سی جہت ترتیب دیتی ہے ؟

اس فصل کے مطالب اور تحلیلیں مذکورہ سوالات کے جوابات کی ذمہ دار ہیں:

انسان ،دوبعدی مخلوق

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جاندار انسان بے جان موجود سے متفاوت ہوتا ہے اس طرح کہ زندہ موجود میں کوئی نہ کوئی چیز بے جان موجود سے زیادہ ہے ۔ آدمی جب مرجاتا ہے تو مرگ کے بعد کا وہ لمحہ موت سے پہلے والے لمحہ سے مختلف ہو تا ہے، اس مطلب کو روح کے انکار کرنے والے بھی قبول کرتے ہیں ،لیکن اس کی بھی مادی لحاظ سے توجیہ کرتے ہیں۔ہم آئندہ بحث میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کریں گے کہ روح اور روحی چیزیں مادی توجیہ قبول نہیں کرتیں ہیں ۔ بہر حال روح کا انکار کرنے والوں کے مقابلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ زمانہ سے ادیان الٰہی کی تعلیمات اور دانشوروں کے آثار میں انسان کا دوپہلو ہونا اور اس کا روح و بدن سے مرکب ہونا نیز روح نامی عنصر کا اعتقاد جو کہ بدن سے جداا ورایک مستقل حیثیت کا حامل ہے بیان کئے گئے ہیں۔ اس عنصر کے اثبات میں بہت سی عقلی و نقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ،قرآن مجید بھی وجود انسانی کے دو پہلو ہونے کی تائید کرتا ہے اور جسمانی جہت کے علاوہ جس کے بارے میں گذشتہ آیات میں گفتگو ہو چکی ہے، بہت سی آیات میں انسان کے لئے نفس و روح کا پہلومورد توجہ واقع ہوا ہے ۔

اس فصل میں سب سے پہلے جسمانی پہلو اور اس کے بعد روحانی پہلو کی تحقیق کریں گے ۔