روح کے اثبات میں بشری معرفت اور دینی نظریہ کی ہماہنگی
گذشتہ بحث میں قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جسم اور جسمانی حوادث کے علاوہ انسان کے لئے روح نام کی ایک دوسرے مستقل پہلو کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے ، اب ہم
روح کی خصوصیات اور روحی حوادث سے مختصر آشنائی اور عقلی مباحث اور تجربی شواہد کے تقاضوں سے دینی نظریہ کی ہماہنگی کی مقدار معلوم کرنے کے لئے انسان کی مجرد روح کے وجود پر مبنی بعض تجربی شواہد اور عقلی دلیلوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔
الف) عقلی دلائل
شخصیت کی حقیقت
ہم میں سے کوئی بھی کسی چیز میں مشکوک ہوسکتا ہے لیکن اپنے وجود میں کوئی شک نہیںکرتا ہے ۔ ہر انسان اپنے وجود کو محسوس کرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے یہ اپنے وجود کا علم اس کی واضح ترین معلومات ہے جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوسری طرف اس مطلب کو بھی جانتے ہیں کہ جس چیز کو ''خود ''یا ''میں '' سے تعبیر کرتے ہیں وہ آغاز خلقت سے عمر کے اواخر تک ایک چیز تھی اور ہے ، جب کہ آپ اپنی پوری زندگی میں بعض خصوصیات اور صفات کے مالک رہتے ہیںیا اسے کھو بیٹھتے ہیں لیکن وہ چیز جس کو ''خود ''یا ''میں '' کہتے ہیں اسی طرح ثابت و پایدار ہے، ہم مذکورہ امور کو علم حضوری سے حاصل کرتے ہیں ۔
اب ہم دیکھیں گے کہ وہ تنہا ثابت و پایدار شی ٔکیا ہے ؟ وہ تنہا ،بغیر کسی شک کے ، اعضاء یا اجرام یا بدن کا دوسرا مادی جزء یارابطوں کے تاثرات اور ان کے مادی آثار نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ان کو ہم علم حضوری کے ذریعہ حاصل نہیں کرتے ہیں ؛ بلکہ ظاہری حواس سے درک کرتے ہیں ، اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ متحول و متغیر ہوتے رہتے ہیں ، لہٰذا ''میں ''یا ''خود''ہمارے جسم اور اس کے آثار و عوارض کے علاوہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اس کی پایداری و استحکام، مجرد اور غیر مادی ہونے پر دلالت کرتی ہے ،یہ بات قابل توجہ ہے کہ طریقۂ معرفت اور فلسفہ علم سے بعض ناآشنا حضرات کہتے ہیں کہ علم ؛روح مجرد کے وجود سے انکار کرتا ہے اور اس پر اعتقاد کو غلط تسلیم کرتا ہے۔(۱)
____________________
(۱)مارکس کے ماننے والے اپنے فلسفہ کو فلسفہ علمی کہتے ہیں اور روح کے منکرو معتقد بھی ہیں ۔ملاحظہ ہو: مجموعہ آثار ج۶ص۱۱۵