6%

روح مجرداور انسان کی واقعی حقیقت

انسانی روح کے سلسلہ میں مجرد ہونے کے علاوہ دودوسرے مہم مسائل بھی ہیں جن کے سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کوا ختصار اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے گا ۔ پہلی بات یہ کہ انسان کی روح ایک مجرد وجود ہے اور دوسرے یہ کہ انسان کی واقعی حقیقت ( وہ چیزیں جو انسان کی انسانیت سے مربوط ہیں)کو اس کی روح تشکیل دیتی ہے، یہ دو مطالب گذشتہ آیات کے مفہوم و توضیحات سے حاصل ہوئی ہیں ۔ اس لئے کہ انسان کی خلقت سے مربوط آیات میں اس کے جسمانی خلقت کے مراحل کے بیان کے بعد ایک دوسری تخلیق یا روح پھونکنے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور یہ نکتہ روح کے غیر مادی ہونے کی علامت ہے ،جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد انسان کی بقا اور عالم برزخ میں زندگی کا دوام نیز اس کا کامل اور پوری طرح دریافت ہونا بھی روح کے مادی و جسمانی نہ ہونے کی علامت ہے ۔ دوسری طرف اگر انسان کی واقعی حقیقت اس کے مادی جسم میں ہے تو مرنے اور جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد نابود ہوجانا چاہیئے تھا جب کہ آیات قرآنی جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد بھی انسان کی بقا کی تائید کرتی ہیں ،خداوند عالم نے انسان کی فرد اول کے عنوان سے حضرت آدم کی خلقت کے بارے میں فرمایا : '' روح پھونکے جانے کے بعد ؛سجدہ کرو '' یہ حکم بتا تا ہے کہ اس مرحلہ میں پہلے وہ خلیفة اللہ انسان جس کی خلقت کا خدا وند عالم نے وعدہ کیا تھا ابھی وجود میں نہیں آیا ہے انسان کی خلقت میں یہ کہنے کے بعد کہ( ثُمَّ أَنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ ) ''پھرہم نے اس کو ایک دوسریشکلمیں پیدا کیا''اس جملہ کو بیان کیا( فَتَبارَکَ اللّٰهُ أحسَنُ الخَالِقِینَ ) (۱) ''پس مبارک ہے وہ اللہ جوبنانے والوں میں سب سے بہترہے''، یہ نکتہ بھی دلالت کرتا ہے کہ انسان کا وجود روح پھو نکنے کے بعد متحقق ہوتا ہے ،وہ آیات جو بیان کرتی ہیں کہ ہم تم کو تام اور کامل دریافت کرتے ہیں وہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی روح اس کی واقعی حقیقت کو تشکیل دیتی ہے ورنہ اگر جسم بھی انسان کے حقیقی وجود کا حصہ ہوتا تو موت کے وقت انسان ،تام اور کامل دریافت نہیں ہوتا اور جسم کے پراگندہ ہو تے ہی انسان کی واقعی حقیقت کا وہ حصہ بھی نابود ہو جاتا ۔

____________________

(۱)سورۂ مومنون ۱۴