درجہ میں ہونا(۱) یہ وہ امور ہیں جو قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اور دوسری مخلوقات پرانسان کی عدم برتری کی علامت ہے بلکہ ان کے مقابلہ میں انسان کے پست تر ہونے کی علامت ہے،کیا یہ دوطرح کی آیات ایک دوسرے کی متناقض ہیں یا ان میں سے ہر ایک کسی خاص مرحلہ کو بیان کررہی ہے یا مسئلہ کسی اور انداز میں ہے ؟
مذکورہ آیات میں غور و فکر ہمیں اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان قرآن کی نظر میں دو طرح کی کرامت رکھتا ہے :
کرامت ذاتی یا وجود شناسی اور کرامت اکتسابی یا اہمیت شناسی ۔
کرامت ذاتی
کرامت ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسا خلق کیا ہے کہ جسم کی بناوٹ کے اعتبار سے بعض دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں زیادہ امکانات و سہولت کا حامل ہے یا اس کے امکانات کی ترکیب و تنظیم اچھے انداز میں ہوئی ہے، بہر حال بہت زیادہ سہولت اور توانائی کا حامل ہے اس طرح کی کرامت ، نوع انسان پر خداوند عالم کی مخصوص عنایت کا اشارہ ہے جس سے سبھی مستفیض ہیں، لہٰذا کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ ان چیزوں سے مزین ہونے کی بنا پر دوسرے مخلوق کے مقابلہ میں فخر کرے اور ان کو اپنا انسانی کمال اور معیار اعتبار سمجھے یا اس کی وجہ سے مورد تعریف قرار پائے ،بلکہ اتنی سہولت والی ایسی مخلوق تخلیق کرنے کی وجہ سے خداوند عالم کی حمد و تعریف کرنا چاہیئے ۔ جس طرح وہ خود فرماتا ہے( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أحسَنُ الخَالِقِینَ ) اور سورۂ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ( وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاهُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاهُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاهُم عَلیٰ کَثِیرٍ مَمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً ) (۲) اور بہت سی آیات جو دنیا اورمافیہا کو انسان کے لئے
____________________
(۱)(ثُمّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ )(تین۵)پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔
(۲)سورۂ اسراء ۷۰