12%

مسخر ہونے کوبیان کرتی ہیں جیسے ''( وَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِیالأرضِ جَمِیعاً مِنهُ ) (۱) اور جیسے (خَلَقَ لَکُم مَا فِی الأرضِ جَمِیعاً)وغیرہ تمام آیات صنف انسان کی کرامت تکوینی پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور( خُلِقَ الِإنسَانُ ضَعِیفاً ) (۲) جیسی آیات اور سورہ ٔ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ جو کہ بہت سی مخلوقات (نہ کہ تمام مخلوقات)پر انسان کی برتری کو پیش کرتی ہے یعنی بعض مخلوقات پر انسان کی ذاتی عدم برتری کی یاد آوری کرتی ہے ۔(۳)

کرامت اکتسابی

اکتسابی کرامت سے مراد ان کمالات کا حاصل کرنا ہے جن کو انسان اپنے اختیاری اعمال صالحہ اور ایمان کی روشنی میں حاصل کرتا ہے ،کرامت کی یہ قسم انسان کے ایثار و تلاش اور انسانی اعتبارات کا معیار اور خداوند عالم کی بارگاہ میں معیار تقرب سے حاصل ہوتا ہے، یہ وہ کرامت ہے جس کی وجہ سے یقینا کسی انسان کو دوسرے انسان پر برتر جانا جاسکتا ہے ،تمام لوگ اس کمال و کرامت تک رسائی کی قابلیت رکھتے ہیں ، لیکن کچھ ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ اس سے بے بہرہ رہتے ہیں ، گویا اس کرامت میں نہ تو تمام لوگ دوسری مخلوقات سے برتر ہیں اور نہ تمام لوگ دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں پست یا مساوی ہیں ،لہٰذا وہ آیتیں جو انسان کی کسبی کرامت کو بیان کرتی ہیں دو طرح کی ہیں :

الف) کرامت اکتسابی کی نفی کرنے والی آیات

اس سلسلہ کی موجودہ آیات میں سے ہم فقط چار آیتوں کے ذکر پر اکتفا کررہے ہیں :

____________________

(۱)سورہ جاثیہ ۱۳۔ (۲)سورۂ نساء ۲۸۔(۳)گذشتہ بحثوں میں غیر حیوانی استعداد کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور انسان کی دائمی روح بھی معرفت انسان کی ذاتی اور وجودی کرامت میں شمار ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ سبھی یا ان میں سے بعض انسان کی عالی خلقت سے مربوط آیات جو متن کتاب میں بھی مذکور ہیں مد نظر ہوں ۔