خلاصہ فصل
۱۔ گذشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کرامت اکتسابی ، انسان کے اختیار و ارادہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے. ہم اس فصل میں مسئلہ اختیار اور اس کے حدود کے اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کریںگے ۔۲۔ انسان ایسی مخلوق ہے جو آزمائش ،انتخاب اور قصد وارادے سے اپنے افعال کو انجام دیتا ہے عقلی ونقلی دلیلیں انسان کے اندرپائے جانے والے عنصر (اختیار) کی تائید کرتی ہیں. لیکن اس کے باوجودکچھ شبہات بیان کئے گئے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے.۳۔مسلمانوں کے درمیان ایک گروہ (مجبرہ)ہے جو بعض آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کو ارادۂ الہی کے زیر اثر، فاقداختیار سمجھتا ہے۔ وہ آیات وروایات جو خدا کے علم مطلق اور وہ آیات وروایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ کوئی بھی چیز خدا کے اذن وارادے سے خارج نہیں ہے اور وہ دلیلیں جو بیان کرتی ہیں کہ انسانوں کا مقدر پہلے سے ہی آراستہ ہے. اس گروہ (مجبرہ) نے ایسی ہی دلیلوں سے استناد کیا ہے۔۴۔ اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ تمام مورد نظر دلیلیں عقیدہ ٔ تفویض کی نفی کررہی ہیں اور اس نکتہ کو ثابت کررہی ہیں کہ خداوندعالم ابتداء خلقت سے تاابددنیاکاعالم و نگراں نیزمحافظ ہونے کے باوجود انسان سے اختیار سلب نہیں کرتا ہے اور یہ کہ تمام چیزیں اس کے قضاء وقدر سے مربوط ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر واقعہ کے متحقق ہونے کے لئے کافی ووافی شرائط کا ہونا ضروری ہے منجملہ شرائط ، انتخاب کے بعد قصد کا ہونا ہے اور یہ کہ تمام اشیاء خداوند عالم کے ارادے اور اذن کے حدود میں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲکاارادہ انسان کے ارادے کے مقابلہ میں ہے.بلکہ ہمارا ارادہ بھی ارادۂ پروردگار کے ہمراہ اور طول میں موثر ہے۔۵۔ دوسرا شبہ اجتماعی وتاریخی جبر کے نام سے معروف ہے اور کہا جاتا ہے کہ انسان قدرت مقاومت نہ رکھنے کے باوجود تاریخی واجتماعی عوامل اور تقاضوں سے متاثر ہے''. ہگل ،ڈورکھیم اور مارکس'' فرد واجتماع کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ایسا ہی نظریہ رکھتے تھے.علم جنٹک کی پیشرفت کے ساتھ یہ شبہ ایجاد ہوتا ہے کہ انسان کا انتخاب در اصل دماغ کے شیمیائی فعل و انفعالات کا نتیجہ ہے اور انسان کا ایک دوسرے سے متفاوت ہونا اس کے جسمی اور موروثی تفاوت کی وجہ سے ہے ، لہٰذا انسان اپنی جسمی اور طبیعی خصلتوں سے مغلوب و مقہور ہے ۔
۶۔ ان دو شبہوں کے جواب میں مذکورہ عوامل کے وجود کا منکر نہیں ہونا چاہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تکمیل میں سیاسی ،اقتصادی اور اجتماعی روابط بھی بہت زیادہ اثر انداز ہیں اور انسانوں کی زندگی کے تفاوت میں عنصر وراثت بھی دخیل ہے. لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والوں نے ان عوامل کی تاثیر کے مقدار میں مبالغہ کیا ہے اور درونی و معنوی عوامل کی تاثیر کو بھول بیٹھے ہیں. انسان کا نفس ایک غیر مادی عنصر ہے اورارادہ اس کی قوتوں میں سے ہے جو مادی اور ضمنی محدودیتوں کے باوجود بھی اسی طرح فعالیت اور مقاومت انجام دے رہا ہے.